سپریم کورٹ کا پنجاب اور کے پی میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم

Mar 01, 2023 | 08:48:AM
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(عثمان دل محمد+امانت گشکوری) سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

قرآنی آیت سے فیصلے کا آغاز کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات سے متعلق درخواستیں منظور کیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے، انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونا ہیں، پارلیمانی جمہوریت آئین کا salient feature ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی 14، کے پی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی، پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نا ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے، کے پی میں انتخابات کے اعلان کا اختیار گورنر کا ہے، صدر مملکت کی جانب سے دی گئی تاریخ پنجاب پر لاگو ہوگی۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں صدر کی دی گئی تاریخ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔ جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے، اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نا کر کے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، وفاقی حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، سیکورٹی سمیت تمام سہولیات الیکشن کمیشن کو فراہم کی جائیں، تمام متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔

جسٹس منصور اور جسٹس جمال کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا، جس میں کہا گیا کہ منظور الہی اور بے نظیر کیس کے مطابق از خود نوٹس لینا نہیں بنتا، ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے۔

اختلافی نوٹ می مزید کہا گیا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، پشاور اور لاہور ہائیکورٹ تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

پہلے دن کی سماعت

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے تین معالات ہیں۔ وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے بتایا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے، اسے بھی ساتھ سنا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں چیزیں واضح نہیں، ہم نے دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، انتخابات میں تاخیر کو مزید طول نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سینئر وکلا کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں انکی معاونت چاہیئے ہوگی، اس کیس کیلئے روٹین کے کیسز نہیں سنیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراض اٹھایا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا، سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو کیسے بلا لیا گیا ؟ میرے نزدیک یہ از خود نوٹس نہیں بنتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بھی از خود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی جس پر از خود نوٹس لیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس اطہر من اللہ کے سوالات اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحفظات کو اپنے حکم میں دیکھیں گے، یہ الگ بحث ہے کہ از خود نوٹس لینا چاہئے تھا یا نہیں، بنیادی حقوق کا معاملہ ہونے پر از خود نوٹس لیا۔

جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیوز سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔ جسٹس اطہر من االلہ نے کہا کہ ہم اس کیس میں آئینی شک پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184 تین میں دیکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تین سوالات تھے چوتھا سوال جسٹس اطہر من اللہ کا بھی شامل کر رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سوال بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد کیا بحال ہوسکتی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے کیس کی تیاری کیلئے مزید وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کیلئے تیاری مشکل ہو پائے گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔ صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے درخواست کو کیس کیساتھ سننے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی درخواست بھی دیکھ لیں گے۔

سیکرٹری اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے شعیب شاہین کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ صدر نے ہم سے مشاورت نہیں کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سننا چاہتے ہیں۔ صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے استدعا کی کہ سیاسی جماعتوں کو فریق نہ بنایا جائے۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے سیاسی جماعتوں کو سننے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سمیت سب جماعتیں بتائیں کہ انتخابات کب کسیے کرانے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پی ڈی ایم میں کئی جماعتیں ہیں ان کو بھی سننا چاہیئے، تحریم انصاف کے وکیل بھی موجود ہیں، سب جماعتوں کو موقع دینا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو لازمی سننا چاہیئے۔

وکیل پی ٹی آئی ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ سے ریکارڈ بھی منگوا لیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ریکارڈ منگوا کر وقت ضائع نہیں کر سکتے، آج نوٹس کرنے کے علاوہ کوئی حکم جاری نہیں کریں گے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اسلام ہائیکورٹ بار اور پنجاب اور کے پی کے سابق اسپیکرز کی درخواستیں آئیں، درخواستوں میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی استدعا کی گئی، صدر مملکت نے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ میں اسی نوعیت کے معاملے زیر سماعت ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے علاوہ اور جماعتیں آنا چاہیں تو پیش ہوسکتی ہیں، لاہور ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد انتخابات کرانے کا حکم دیا، لاہور ہائیکورٹ کے حکم کو انٹراکورٹ اپیل میں چیلنج کر دیا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ انتحابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔

بعد ازاں عدالت نے صدر، گورنرز، الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

دوسرے دن کی سماعت

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی نہیں ملی، تمام فریقین کو نوٹس نہیں مل سکے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام ایڈوکیٹ جنرلز موجود ہیں نوٹس کا مقصد صرف آگاہ کرنا تھا، پیر کو کیس کی سماعت کریں گے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تمام فریقین کو سن کر ججز پر اعتراض کا معاملہ دیکھیں گے، پیر کو تمام معاملات کو سنیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور تحریک انصاف کے وکیل موجود ہیں، پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس کیا ہے، صدر سپریم کورٹ بار کے علاوہ بھی کوئی وکیل پیش ہوسکتا ہے۔

فاروق نائیک نے کہا کہ ججز سے کوئی ذاتی خلفشار نہیں، جو ہدایات ملیں وہ سامنے رکھ رہا ہوں، ہدایات ہیں کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی بینچ سے الگ ہو جائیں۔ فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملے پر پیر کو آپ کو سنیں گے۔

فاروق ایچ نائیک نے پی ڈی ایم جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی غلام محمود ڈوگر کیس میں اس معاملے کو سن چکے، استدعا ہے دونوں جج صاحبان خود کو ازخود نوٹس سے الگ کرلیں۔

پی ڈی ایم کے مشترکہ تحریری نوٹ میں کہا گیا ہےکہ فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے، دونوں ججز کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا گیا اس لیے مذکورہ ججز بینچ سے الگ ہوجائیں، دونوں ججز (ن) لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔

فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جب کہ جسٹس جمال کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔ پی پی کے وکیل نے کہا کہ دونوں ججز نے ازخود نوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا، جسٹس مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر خود کو بینچ سے الگ کر دیں، ڈوگر کے سروس میٹر میں ایسا فیصلہ آنا تشویشناک ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ مسٹر نائیک آپ کو نہیں لگتا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ فل کورٹ کو سننا چاہیے؟  اس پر فاروق ایچ نائیک نے انتخابات میں تاخیر کے ازخود نوٹس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ انتخابات کا معاملہ عوامی ہے،اس پر فل کورٹ ہی ہونا چاہیے۔

فاروق نائیک کے مؤقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16 فروری کو فیصلہ آیا اور 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، آرٹیکل 184/3 کے ساتھ اسپیکرز کی درخواستیں بھی آج سماعت کے لیے مقرر ہیں۔

وکیل شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا پر ججز کی توہین کی جا رہی ہے، کوئی جماعت اپنی مرضی کے ججز شامل نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کو ججز کی تضحیک کا نوٹس لینا چاہیئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے۔ جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ انتہائی اہم ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹ ہے، یہ نوٹ تو تحریری حکم نامہ کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ 16 فروری کو فیصلہ آیا اور 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے، عدالت اسپیکرز کی درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے، از خود نوٹس سے پہلے بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے، ایک صدر کی جانب سے تاریخ دینا دوسرا اسپیکرز کی جانب سے درخواست آنا، عام طور پر شہری انصاف کیلئے عدالت آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے اس بار آئین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت ملتوی کر دی۔

4 ججز نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا ؟

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا۔ جس میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں  لکھا ہے کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں بینچ میں شامل ایک جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا ہے۔

 انہوں نے لکھا ہے کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔ بار کونسلز نے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر دیا۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے دیگر سینئر ججز کی بنچ پر عدم شمولت پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2 سینئرججز کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا ہے کہ آڈیو لیک کے بعد عوام میں تنازعہ کھڑا ہوا۔آڈیو بینچ میں موجود ایک جج سے بھی متعلقہ ہے۔ایک جج کی آڈیو سے متعلق عدالت کے اندر اور باہر آواز اٹھی۔سپریم کورٹ نے کوئی جواب دیا اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سےجواب آیا۔یہ خبر بھی شائع ہوئی پاکستان کونسلز نے ایک جج کیخلاف جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

نوٹ کے مطابق جج پر لگائے گئے ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیں۔ ایسے جج جس پر الزام ہے اسے بینچ میں شامل کرنا نامناسب ہے۔ یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب دیگر سینئر ججز کو بینچ میں شامل نہ کیا جائے۔دو ججز اپنی واضح رائے دے چکے ہیں اس لیے انھیں شامل نہیں ہونا چاہیے۔عدلیہ کی اصل طاقت عوام کا اعتماد ہے۔عدالتی کی غیر جانبداری اور شفافیت ایسی ہونی چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں اہم سوال اٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہےکہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے، میں نے جب عدالت میں آئینی نکات اٹھائے تو چیف جسٹس نے انہیں شامل کرنے پر اتفاق کیا، میرے سوالات پر بینچ کےکسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، کھلی عدالت میں میرے سوالات کو شامل کرکے حکم نامہ لکھوایا گیا، چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، جہاں آئین کی تشریح اس عدالت کا اختیار ہے وہاں آئین کا تحفظ بھی اسی عدالت کا کام ہے۔

 جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنےکی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے  والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی  عدالت کے  سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے  پہلے اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت  دیکھنا ناگزیر ہے، صوبائی اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت کو  نظر انداز  نہیں کیا  جاسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے، اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ

جسٹس جمال خان مندوخیل نےاپنےاختلافی نوٹ میں آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ غلام ڈوگر کیس سے متعلق آڈیو سنجیدہ معاملہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی الیکشن سے متعلق پہلے ہی اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں۔ نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ دونوں ججز کا موقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہیے۔دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آڑٹیکل 10 اے پر غور نہیں کیا۔ان حالات میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا پے کہ الیکشن سے متعلق درخواستیں لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔الیکشن سے متعلق درخواستیں پشاور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائیکورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔  انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں۔ میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔

 تیسرے دن کی سماعت

سپریم کورٹ کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی 90 روز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے ؟ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدرعابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلی کا نہیں۔

عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔

 اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا جب ججز دستخط کر دیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلی کا نہیں۔ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی زمہ داری پوری نہیں کر رہی ؟ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔

عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے مشاورت کےلئے خط لکھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں۔ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔

جسٹس جمال نے ریمارکس میں کہا کہ صدر کے اختیارات برارہ راست آئین نے نہیں بتائے۔ آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا۔ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کرینگے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہا صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے تو الیکشن کیسے ہوگا ؟ کیا وزیر اعظم ایڈوائس نہ دے تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار تفویض کیا ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ تفویض کردہ اختیارات استعمال کرنے کےلیے ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔ الیکشن ہر صورت میں 90 روز میں ہونا ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔

وقفہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہو سکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینے کی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے واضح کہا کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 14، 14 روز کے لیے ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کے اختیارات تاریخ کے ساتھ وقع پذیر ہوئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ میں صدر کے کچھ جمہوری کچھ غیر جمہوری اختیارات تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن 57 ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ کیا کسی نے سیکشن 57 کو آئین سے متصادم ہونے پر چیلنج کیا ؟۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیارالیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائیگا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکش کمیشن کا کردار حتمی ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ دی ہے، الیکشن پروگرام پر عمل کریں تو انتخابات 90 روز کی مدت میں ممکن نہیں، پنجاب میں 90 روز کی مدت 14 اپریل کو پوری ہورہی ہے، صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے، الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے، انتخابی مہم کےلئے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کے لئے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن با اختیار ہے، کیا شیڈول میں تبدیلی کرسکتا ہے، آئین پر عملدرآمد ہر صورت میں ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا ؟ 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون ؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 90 دن سے تاخیر کی عدالت اجازت دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں کریں کرینگے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کے پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کیلئے سمری نہیں بھجوا سکتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ مقرر کرنے کیلئے پارلیمنٹ آج قانون بنالے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سازی پر طعنہ ملتا ہے اسمبلی مکمل ہی نہیں، عدالت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا ہے، صدر مملکت نے کہہ دیا تاریخ میں دونگا، عدالت نے اس نکتے کو طے کرنا ہوگا، صدر مملکت کو کسی نے تاریخ دینے کا کہا بھی نہیں تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر وزیر اعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری پوری کرتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 روز کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے نہیں نکل سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا الیکشن کمیشن کی انتخابات سے متعلق تیاری کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے، آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر کی ؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر سے مشاورت کے لئے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے، کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جاسکتا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کو بتایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے خود مشاورت کرنی ہے جو کرنا ہے کریں۔

وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی وزیر اعلی کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی، ہم نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر خیبرپختونخوا کے 31 جنوری کے خط کا کیا مطلب ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔ وکل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے پانچ رکنی لارجر بنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ زمینی حقائق دیکھ کر ہی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے، ایک نقطہ نظر ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرے، الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے، الیکشن کی تاریخ کے بعد رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں، اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں، انتخابات کروانا لازم ہے، اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام جماعتیں پورے ملک میں انتخابات کرانے سے متعلق مشاورت کریں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انتخابات کی متفقہ تاریخ دی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ڈی ایم کچھ پیچھے جائے اور تحریک انصاف کچھ آگے آئے، ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی، مقدمہ بازی عوام اور سیاسی جماعتوں کیلئے مہنگی ہوگی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ 90 روز سے آگے الیکشن چلے گئے تو یہ روایت بن جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ حالات کے مطابق متفقہ تاریخ دی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو، قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے، آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نوے روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی اسے عدالت میں چیلنج کر دے گا، معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو اپنی قیادت سے ہدایات لینے کی مہلت دی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی قائدین سے مشورہ کر کے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں، جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کی جائے، میرے پنچائیتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے، جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ ایک فریق لچک دکھائے، اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکر فیصلہ کیا جائے، قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئے گا۔

وکیل فاروق نائیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ،آصف زرداری اور مولانا سے مشاورت کرنی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں، عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی قیادت سے بات ہوئی ہے، پیپلز پارٹی قیادت کا موقف ہے الیکشن کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی، بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے، صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہوئی ہے، مشاورت کیلئے مزید وقت درکار ہے، مناسب ہوگا عدالت کیس آگے بڑھائے۔

جسٹس منصور علی نے کہا کہ آپس میں تاریخ طے کرنی یا نہیں فیصلہ کر کے عدالت کو بتائیں، عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو صدر کو ایڈوائس کون کریگا، اسمبلی مدت پوری کرے تو دو ماہ میں انتخابات لازمی ہیں، ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بجھوا سکتے ہیں، سمری واپس بجھوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے، صدر کا اعتماد کے ووٹ کا کہنے کیلئے کسی سمری کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ التواء میں ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اور کیس تقریباً مکمل ہو چکا ہے، عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں، عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے۔

وکیل مسلم لیگ ن منصور اعوان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہو گا تو پنجاب اور کے پی کے میں منتحب حکومتیں ہوں گی، منتحب حکومتوں کے ہوتے ہوئے یکساں میدان ملنا مشکل ہے، قومی اسمبلی کے انتحابات پر سوالیہ نشان اٹھے گا، عدالت مردم شماری کو بھی مدنظر رکھے، 30 اپریل تک مردم شماری مکمل ہو جائے گی، مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ آئین واضح ہے انتحاب نوے دن میں ہوں گے۔

صدر پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں، صدر کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی تاریخ دینے کا بھی اختیار ہے، صدر کو قانونی مشورہ دیا گیا اپنا آئینی اختیار استعمال کریں، گورنر کے پی کے تاریخ دینے کا اختیار استعمال نہیں کر رہے تھے، صدر تسلیم کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کیلٸے انہیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی، صدر کو کے پی الیکشن کیلٸے تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صدر مملکت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرینگے، پنجاب میں صدر کو اختیار تھا کے پی میں نہیں، صدر نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے لیے بلوایا تھا، الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا، صدر مملکت نے آئین و قانون کے مطابق تاریخ دی، نوے روز میں ہر صورت انتخاب ہونے چاہئیں، صدر کو آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی دھمکیاں مل رہی ہیں، کابینہ نے صدر کو کہا ہے۔ آپ کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔