پاکستان میں اردو ترجمے کے پچھتر سال
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) اردوسائنس بورڈکے زیراہتمام”پاکستان میں اردو ترجمے کے پچھتر سال“ کے موضو ع پرقومی سیمینار کاانعقاد۔ ڈاکٹر محمد ارشد اویسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ترجمے کے لیے کام کرنے والے اداروں اور مترجمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹر راشد حمید کا کہنا تھا کہ ترجمے کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، لسانی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کااستعمال ناگزیر ہے۔
پاکستان کے جشن الماسی (ڈائمنڈ جوبلی)کے حوالے سے اردوسائنس بور ڈکے زیراہتمام ”پاکستان میں اردو ترجمے کے پچھتر سال“کے موضوع پرایک روزہ قومی سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کی صدارت چیئرمین شعبہ اردو لاہور گیریژن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد اویسی نے کی۔ڈاکٹر محمد ارشد اویسی نے صدارتی خطاب میں پاکستان میں اردو ترجمے کے تاریخی پس منظر، ضرورت اوراہمیت کے بارے میں مدلل اور فکر انگیز گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے قیام پاکستان کے وقت ہی ضرورت محسوس کی گئی اور اس سلسلے میں کوششیں کی گئیں۔دوسری زبانوں سے اپنی زبان میں ترجمے صرف سماجی، سائنسی یا مذہبی ضرورت نہیں بلکہ یہ ہماری قومی یکجہتی کے لیے بھی ضروری ہے۔ڈاکٹر ارشد اویسی نے پاکستان میں ترجمے کے فن کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اداروں اور ماہر مترجمین کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
پروفیسر شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی لاہورڈاکٹر خالدمحمودسنجرانی نے سیمینار سے خطاب میں کہاکہ پاکستان میں ادبی تراجم میں بہت اعلیٰ معیار کا کام ہواہے۔ مشینی ترجمے سے بہت سے مسائل پیداہورہے ہیں۔ جدید دور کے تقاضو ں کے مطابق ترجمے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مختلف زبانوں پر عبور ضروری ہے۔محنت کے بغیر اس فن میں ترقی کا کوئی فارمولانہیں۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محمد نعیم ورک نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں کتاب بینی کارجحان بتدریج کم ہوتاجارہاہے جس کی سب سے بڑی وجہ ناخواندگی کے ساتھ معیاری تراجم کا شائع نہ ہونابھی ہے۔ترجمے کے ذریعے ہم دوسرے معاشروں اور اقوام کی علمی ترقی سے اپنا موازنہ بھی کرسکتے ہیں۔قبل ازیں ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان ڈاکٹر راشد حمید نے مہمانوں کی آمدپر اُن کاشکریہ اداکیا۔انہوں نے اپنے کلیدی خطاب میں کہاکہ دُنیا میں کوئی بھی قوم ترجمے میں کام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ ترجمہ ہمیں دوسری اقوام اور خطوں کے علوم سے روشناس کراتاہے۔اردوزبان کے فروغ کے لیے ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرناہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اردو کا ڈیٹا بینک تیار کرنا ہوگا اور کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی کو لسانی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔
ماہر ترجمہ ڈاکٹر سید تنویر حسین نے ترجمے کی اہمیت، ضرورت اور درپیش مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر جمیل احمد نے سائنسی تراجم کی تاریخ اوراس حوالے سے ہونے والے کام پر گفتگوکی۔ پروفیسر روزینہ سعید نے کہا کہ ترجمہ تہذیبوں کے درمیان پل ہے۔