جب آذان کی میت گھر پہنچے گی تو اس کی ماں کا کیا حال ہو گا؟

Mar 05, 2023 | 10:55:AM
 میت آذان کی بھی ہے جن کے تابوت پر دل کی شکل کے غبارے اور پھول رکھے گئے ہیں۔
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (ویب ڈیسک)آذان آفریدی کی عمر 14 سال تھی اور غیرقانونی طریقے سے اٹلی جانے کی کوشش میں جان کی بازی ہارنے والے پاکستانیوں میں وہ بھی شامل تھے۔مردہ خانے میں موجود انہیں میتوں میں ایک میت آذان کی بھی ہے جن کے تابوت پر دل کی شکل کے غبارے اور پھول رکھے گئے ہیں۔

 

حامد آفریدی آذان کے والد جو پشاور کے علاقے گلبرگ میں رہائش پزیر ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والے یہ چار بھائی اور ان کے بچے اکھٹے رہتے ہیں۔کشتی حادثے کی خبر ملنے کے بعد پشاور میں آذان کے والدین اور رشتہ داروں کے علاوہ اٹلی میں موجود آذان کے ماموں اور سویڈن میں اُن کے بھائی اس کوشش میں لگے رہے کہ آذان کو تلاش کر لیا جائے۔ پانچ روز سے سب خاندان والے اس کشمکش میں رہے کہ کہ آذان کہاں ہے، سمندر میں ڈوب گیا ہے یا کسی ہسپتال میں زیر علاج یا ساحل پر کہیں لاپتہ ہے۔

ضرور پڑھیں :چین کے دفاعی بجٹ میں 7.2 فیصد اضافہ، جنگی تیاریاں بڑھانے کی ہدایت

اہلخانہ کے مطابق جمعرات کو رات دیر سے معلوم ہوا تھا کہ آذان آفریدی کی لاش مل گئی ہے۔  والد حامد خان نے بتایا کہ آذان کی والدہ پوچھ رہی ہیں کہ میرا بیٹا آذان کہاں ہے، اس نے پانچ دنوں سے مجھے فون نہیں کیا۔ فی الحال ہم نے انھیں بتایا ہے کہ وہ ہسپتال میں داخل ہے اور جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ انھوں نے پھر پوچھا کہ اگر وہ ٹھیک ہے تو پھر یہ اتنے لوگ کیوں ہمارے گھر آ رہے ہیں؟ جس پر ہم نے انھیں بتایا کہ یہ آذان کے اٹلی پہنچنے پر خوش ہیں اور مبارکباد دینے آ رہے ہیں۔‘

آذان کے والد کہتے ہیں کہ یہ سب تو ہم نے انھیں وقتی طور پر بتا دیا ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ جب آذان کی میت گھر پہنچے گی تو اس کی ماں کا کیا حال ہو گا؟

آذان آفریدی کی عمر 14 سال تھی اور غیرقانونی طریقے سے اٹلی جانے کی کوشش میں جان کی بازی ہارنے والے پاکستانیوں میں وہ بھی شامل تھے۔ آذان کے والد نے بتایا کہ اُن کا بڑا بیٹا پہلے ہی سویڈن میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے جبکہ آذان کے ایک ماموں اٹلی میں رہتے ہیں۔ ’آذان کو ماموں کے پاس اٹلی بھیجا تھا جہاں سے انھوں نے آذان کو آگے سویڈن بھیجنا تھا۔‘

 

حامد خان بتاتے ہیں کہ ’وہ بہت ضد کر رہا تھا کہ میں نے پڑھنے کے لیے بھائی کے پاس سویڈن جانا ہے۔ ہر وقت اس کا یہی کہنا ہوتا تھا کہ مجھے آپ وہاں بھیجیں میں یہاں نہیں رہوں گا۔‘

حامد بتاتے ہیں جب انہوں نے آذان کے اٹلی میں موجود ماموں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ اسے بھیج دیں۔ انہوں نے ماموں کے کہنے پر آذان کو روانہ کر دیا تھا اور وہ ٹیلیفون پر ماموں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ رابطے میں تھا ۔ ’وہ کوئی دو ماہ پہلے یہاں پشاور سے روانہ ہوا تھا اور اس کے منزل اٹلی کے بعد سویڈن تھی۔

آذان اس سارے سفر میں ماں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا اور اس سے ساری باتیں کرتے رہا۔ جب کشتی کو حادثہ پیش آیا تو اس کے بعد آذان کا فون ماں کو نہیں آیا تو وہ پریشان ہو گئی تھیں اور بار بار کہہ رہی تھیں کہ آذان کا فون نہیں آ رہا اللہ خیر کرے۔ بعد میں انھیں حادثے کا پتہ چل گیا تھا مگر ہم نے انھیں یہ تسلی دی تھی کہ آذان زندہ ہے اور وہاں ہسپتال میں ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا پھر آپ سے رابطہ کرے گا۔ْ‘

حامد خان نے بتایا کہ آذان اور ان کے ساتھ دو لڑکوں اور ایک لڑکی کی لاش سمندر کی جھاڑیوں میں ایک ہی جگہ پھنسی ہوئی تھی جہاں سے انھیں نکالا گیا۔ 

 

 افسوس کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آنے جانے والے دعائیں کر رہے ہیں اور متاثرہ خاندان کے افراد کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ حامد خان اور ان کے بھائی اس صورتحال کی وجہ سے کافی پریشان ہیں اور اُن میں اس معاملے پر بات کرنے کی زیادہ ہمت نہیں ہے۔

ملک کے وزارت خارجہ  اٹلی کے حکام سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ میت جلد پاکستان پہنچ سکتی ہے۔