90 روز میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی: سپریم کورٹ

Feb 16, 2023 | 10:30:AM
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو فوری طلب کرلیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے
کیپشن: سپریم کورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) سپریم کورٹ نے ریکارڈ سمیت چیف الیکشن کمشنر کو کل دوبارہ طلب کرلیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 90 روز میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

سپریم کورٹ میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی کو تبدیل کیوں کیا گیا، غلام محمود ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی ؟۔

جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے غلام محمود ڈوگر کو دوسری مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردار ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد ہوتا یے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں کئیر ٹیکر سیٹ اپ آنے کی وجہ سے الیکشن کمشین سے اجازت لی گئی، آئین کے مطابق کئیر ٹیکر سیٹ اپ آنے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات ہونا ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر بتائیں الیکشن کہاں ہیں۔

جسٹس مظاہر علی نے ریمارکس دیئے کہ آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کر دیا گیا، کیا پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوئی ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا ؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے۔

مختصر وقفے کے بعد جب سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف الیکشن کمشنر عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود غلام محمد ڈوگر کا تبادلہ کیوں کیا گیا۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ چیف سیکرٹری نے کال کی اور تبادلے کی درخواست کی گئی، الیکشن کمیشن نے ایک جامع پالیسی بنائی جس کے بعد تبادلے کیے گئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین نگران حکومت آنے کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جب الیکشن کا اعلان ہوچکا ہو پھر تبادلے کی اجازت دی جاسکتی ہے، نگران حکومت کی درخواست پر صرف غیر معمولی حالات میں تبادلے کیے جاسکتے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا آپ کو کس نے تبادلے کرنے کا اختیار دیا ہے۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ آئین نے مجھے تبادلے کرنے کا اختیار دیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کون ہیں سر کیوں ہلا رہے ہیں بیٹھ جائیں آپ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں، شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نگران حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی، نگران حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کیساتھ درخواست دے گی، الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لیکر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دینگے، الیکشن کمیشن نے یکساں پالیسی کے تحت پورے صوبے میں تقرری و تبادلوں کی اجازت نہیں دی، کچھ کمشنر، ڈی سی، آر پی اوز وغیرہ کا ٹرانفسر ضروری تھا۔ عدالت نے پنجاب بھر میں کیے گئے تبادلوں کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، اگر عدالت اجازت دے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کہنا چاہتا ہوں، الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، آرمی کو سیکیورٹی کا کہتے ہیں تو وہ نہیں دے رہے، ماتحت عدلیہ نے 2018 میں اسٹاف دیا اب دینے کو تیار نہیں، حکومت الیکشنز کیلئے پیسے نہیں دے رہی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر ضروری نہیں تو الیکشن کمشنر کل پیش نہ ہوں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو میری جگہ سیکرٹری یا سینئر افسر کل پیش ہوجائے گا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ ادارے کے سربراہ ہیں آپ خود پیش ہوں سکون سے سنیں گے۔

چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن انتحابات کا اعلان نہیں کر سکتا۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن انتحابات کا اعلان نہیں کر سکتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت الیکشن کمیشن انتحابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، گورنر یا صدر انتحابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق الیکشن کمیشن سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف الیکشن کمشنر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کے ہر ایک لفظ پر عمل کرنے کے پابند ہیں، آپ نے نگران حکومت کے کہنے پر نہیں چلنا، نگران حکومت کو جو اختیار آئین نہیں دیتا آپ کیسے دے سکتے ہیں، اگر آپ 90 روز میں انتخابات نہیں کرواتے تو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، ہمیں دوسرا طریقہ بھی آتا ہے سب کو توہین عدالت میں بلا لیں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں سر عدالت کے حکم کی تعمیل ہوگی، لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ تقرری و تبادلے کا معاملہ سن رہا ہے، مناسب ہوگا کہ عدالت لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ اپیل آنے پر انتخابات کا کیس سنے گی یا اسی کیس میں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبادلہ کیا گیا، غلام محمود ڈوگر کا الیکشن کمیشن کے کہنے پر ہی تبادلہ ہوا، ایسے نہیں مانتے تو ہم نوٹس دیکر بھی طلب کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے غلام محمد ڈوگر کی تبادلے کا تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو بھی کل پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔