آرٹیکل 63 اے کی تشریح ۔عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ریمارکس

Apr 22, 2022 | 13:51:PM
سپریم کورٹ ، حکم
کیپشن: سپریم کورٹ فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر ریمارکس دئیے ہیں کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔ ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں۔دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے ویڈیو لنک پر دلائل کا آغاز کر تے ہوئے کہا 63اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا۔ 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے۔63اے کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ ووٹ کاسٹ تو ضرور ہو گا لیکن اس کو گنا نہیں جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ علی ظفر صاحب اگر اپ نے دس منٹ میں مکمل نہ کیا تو پھر مخدوم علی خان کو سنیں گے۔ جس پر علی ظفر نے کہا میں دس منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔
وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے کردار اور اہمیت پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔آزاد اور سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز ممبر اسمبلی بنتے ہیں۔ 63 اے سیاسی جماعتوں کے ممبر سے متعلق ہے۔
 جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ علی ظفر آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے؟ جس پر علی ظفر نے جواب دیا میں عدالتی تشریح کے ذریعے استدعا کر رہا ہوں۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دئیے کہ انحراف کا فیصلہ پارٹی سربراہ نے کرنا ہے۔ اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا؟
جسٹس جمال خان نے سوال اٹھایا کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا؟ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا۔ووٹ نہ ڈالنے کی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔63اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی۔رکن اسمبلی نے فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ کرنا ہے یا نہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا۔ پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی سپیکر کوبتاسکتا ہے۔
جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے گا پھر جواب لے گا۔نوٹس کے بعد ملنے والے جواب سے پارٹی سربراہ مطمئن ہو کر شوکاز ختم بھی کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کیا آپ کہہ رہے ہیں پارلیمانی پارٹی کی ہدایت اکثریت کی ہوتی ہے۔آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہوگی۔ آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گئے آرٹیکل 96 کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ آپکے مطابق قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔ رضا ربانی اور فاروق نائیک کا کہنا ہے پارٹی سربراہ کے بے پناہ اختیارات کو روکنے کیلئے سزا واضح نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سوال یہ ہے کہ فیصلہ سربراہ کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔پارلیمانی پارٹی میں فیصلہ سازی کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے۔علی ظفر نے کہا سیاسی پارلیمانی جماعت کا آئین ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اکثریت فیصلہ کرتی ہے۔
 جسٹس جمال خان نے سوال اٹھایا کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی؟ سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں۔ہمارے سامنے اکثر جماعتیں آپ کے موقف کے خلاف ہیں۔ا?پ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے۔ صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے۔
علی ظفر نے کہا تشریح کا حق عدالت کے پاس ہے۔ سمجھ سکتا ہوں کہ عدالت تشریح سے آگے نہیں جانا چاہتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے بڑا واضح ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ تشریح کرنا عدالت کا کام ہے۔آئین میں 63اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا۔بعدازاں عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کا کام تمام آئینی سوالات کا جواب دینا ہے۔ جاننا چاہیں گے آرٹیکل 63 اے پر رائے کس حد تک دے سکتے ہیں؟ کیا عدالت ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات کے الفاظ کی قیدی ہے یا اس سے ہٹ کر تشریح کر سکتی ہے؟ ملک کو میچور جمہوریت کی طرف لےکر جانا ہوگا۔ میچور جمہوریت کیلئے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل بحث کریں۔جسٹس منیب اختر نے کہا عزت کا راستہ یہ ہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ سیاستدانوں کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ بعد ازاں کیس کی مزید سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی گئی۔