ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ،پی ٹی آئی کی درخواست مسترد

Sep 06, 2022 | 19:18:PM
ارکان قومی اسمبلی ، استعفے
کیپشن: قومی اسمبلی فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا طریقہ کار موجود ہے، عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی اور نہ ہی سپیکر قومی اسمبلی کو استعفے منظور یا نامنظور کرنے سے متعلق کوئی حکم دے سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی، وکیل نے دلائل دیئے کہ پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی نے استعفے دئیے صرف 11 کے منظور کیے گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے طریقہ کار پر 2015ءمیں عدالت فیصلہ کرچکی، عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی
 چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قومی اسمبلی ارکان کے گیارہ منظور شدہ استعفوں کے متعلق سپیکر نے اپنی تسلی کر لی، یہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کی تسلی کے معیار کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں رکھتی، ہمیں سوچ بدلنا پڑے گی، پارلیمنٹ کا احترام کرنا چاہیے، جب تک اسمبلی اراکین کے استعفے قبول نہ ہو جائیں کیا ان کی ڈیوٹی نہیں کہ لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں؟ استعفیٰ دینے والا ہر رکن انفرادی طور پر سپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے، عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو احکامات جاری نہیں کریگی، جو ڈپٹی سپیکر نے کیا وہ قوانین و عدالتی فیصلوں کے برخلاف تھا،وکیل نے کہا کہ ہماری پارٹی کو پک اینڈ چوز کرکے توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان اسمبلی اکیلے نہیں وہ نمائندہ ہیں اپنے حلقے کی تمام عوام کے، سب پابند ہیں آئین اور قانون پر عمل کرنے کے، وکیل نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرچکے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کے قائم مقام سپیکر نے استعفوں کے حوالے سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا وہ غیر آئینی ہے، اس موقع پر پی ٹی آئی وکیل نے کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعاکی، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ عدالت کبھی بھی اسپیکر کو ہدایات جاری نہیں کرے گی، اس موقع پر عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو عدالت کا پرانا فیصلہ عدالت میں پڑھایا۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں استعفے منظور کرنے کا طریقہ کار بتایا گیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے استعفے منظور کرتے اصول پر عمل نہیں کیا، ڈپٹی سپیکر ایک ایک رکن کو بلاتے الگ بٹھا کر پوچھتے، وکیل نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر اس دن قائمقام اسپیکر کا اختیار استعمال کر رہے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا ڈپٹی سپیکر نے ایک ایک رکن سے بلا کر پوچھا؟، وکیل نے کہا کہ کیا موجودہ سپیکر نے 11 ارکان کے استعفے منظور کرتے یہ اصول اپنایا؟ 123 مستعفی ارکان میں سے کسی نے بھی استعفے سے انکار نہیں کیا، 123 میں سے صرف 11 ارکان کو نکالنے کی کیا تک بنتی ہے؟ 
عدالت نے کہا کہ اصل اسٹیک ہولڈرز ارکان اسمبلی نہیں، ان کے حلقے کے عوام ہیں، اس عدالت کا استعفوں کی منظوری سے متعلق فیصلہ موجود ہے، آپ سپیکر کے سامنے یہ فیصلہ رکھیں کہ ہمارا استعفیٰ ایسے منظور کریں، وکیل نے کہاکہ وہ اقلیت کے بنائے سپیکر ہیں ہم ان کے پاس نہیں جاتے، چیف جسٹس نے کہا کہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر کے پارلیمنٹ کو عزت دینے کی ضرورت ہے، سپیکر نے 11 ارکان کے استعفے اپنی تسلی کر کے ہی قبول کیے ہوں گے، سپیکر کے اس اطمینان کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، آپ ہمارا پرانا فیصلہ اپنی پارٹی کے سامنے رکھیں، پارٹی سے کہیں ایک ایک رکن کو اسپیکر کے پاس بھیجیں ،اپنے ارکان کو سپیکر کے پاس بھیجنے میں تو ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے،وکیل نے کہاکہ ہمیں ہچکچاہٹ ہے تو ہی عدالت میں آئے ہیں، فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ موجودہ سپیکر نے نہ ہماری بات کبھی سنی نہ سنیں گے، مودبانہ گزارش ہے آپ کا پرانا فیصلہ موجود صورتحال پر لاگو نہیں ہوتا، مجھے اپنا کیس پیش کرنے دیں پھر بے شک مسترد کر دیں یا منظور کریں،میں نے جیسے اپنا کیس تیار کیا اس طرح پیش کرنے کیلئے دس منٹ دے دیں،پی ٹی آئی کے123 استعفوں کی منظوری کے بجائے صرف 11 منظور کرکے الیکشن کروانابدنیتی ہے،الیکشن کرانے ہیں تو پورے123 حلقوں میں کروائیں،موجود سپیکر کے پاس پہلے نوٹیفکیشن کو واپس لینے کا اختیار نہیں تھا، اگر فرداً فرداً استعفے کی تصدیق ضروری ہے تو سب کی ہونی چائیے،11 ارکان کو بغیر تصدیق کے ڈی نوٹیفائی کرنا باقیوں کی تصدیق کا انتظار امتیازی سلوک ہے۔
 پی ٹی آئی وکیل فیصل چودھری کے دلائل مکمل ہونے پر سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ایک ہی شخص9نشستوں پر الیکشن لڑنے کا کہہ رہا ہے، پی ٹی آئی وکیل نے کہاکہ یہ پی ٹی آئی کا فیصلہ ہے کون کہاں سے لڑے گا،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو پتہ ہے الیکشن میں کتناخرچ آتاہے؟ عوام اپنے نمائندے 5 سال کےلیے منتخب کرتے ہیں، یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ جب دل کیااستعفیٰ دیا پھرالیکشن لڑلیا،دلائل سننے کے بعد عدالت نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے،خارج کردی۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کا کیا کرنا ہے؟ حکومت کو واضح پیغام مل گیا