مادہ سانپوں میں کلِٹُرِس( جنسی اعضا) کی دریافت

Jan 03, 2023 | 16:00:PM
فائل فوٹو
کیپشن: مادہ سانپوں میں کلِٹُرِس( جنسی اعضا) کی دریافت
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک )سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ مادہ سانپوں میں کلِٹُرِس (عضو شہوت) پایا جاتا ہے، جس سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا ہے کہ مادہ سانپوں میں جنسی عضو نہیں ہوتا۔نر سانپ کے عضو تناسل پر کئی دہائیوں سے تحقیق ہو رہی ہے۔ لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اس کے مقابلے میں مادہ سانپوں کے جنسی اعضا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ایسا نہیں تھا کہ یہ نظروں سے اجھل تھے، بلکہ اس سے پہلے سائنسدانوں نے انھیں دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
تفصیلات کے مطابق مادہ سانپوں میں دو کلِٹُرِس ہوتے ہیں جو ایک پٹھے کے ذریعے ایک دوسرے سے الگ اور دم کے نچلی جانب چھپے ہوتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ دو دیواروں والا یہ عضو اعصاب، کولیجن اور خون کے سرخ خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے پٹھوں میں مردانہ عضو تناسل کی طرح اکڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔فولویل کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ان کی جستجو کا سبب یہ تھا کہ مادہ سانپوں میں جنسی اعضا سے متعلق دستیاب مواد میں کہا گیا تھا کہ ان میں یہ ہوتے ہی نہیں یا ارتقا کے دوران ختم ہو چکے ہیں۔ ’مجھے یہ بات صحیح نہیں لگتی تھی۔’میں جانتی ہوں کہ یہ (کلِٹُرِس) تمام جانوروں میں پایا جاتا ہے اس لیے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تمام سانپوں کے اندر نہ ہو۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے صرف ایک نظر ڈالنا پڑی یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا یہ ساخت وہاں پر موجود بھی ہے اور کہیں یہ نظر انداز تو نہیں ہو ئی۔‘

سائنسدانوں نےکہا کہ انھوں نے آغاز آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک انتہائی زہریلے سانپ، ڈیتھ ایڈر، پر تحقیق سے کیا اور بہت جلد دل جیسا کلِٹُرِس ڈھونڈ نکالا۔ یہ سانپ کے مہک پیدا کرنے والے غدود کے قریب تھا۔ یہ غدود جنسی ملاپ کے لیے جنس مخالف کو اپنی جانب مائل کرنے کے کام آتے ہیں۔
انھوں نے بتایا ’مادہ سانپ میں یہ ایک دوہری ساخت تھی ارد گرد کے عضلات سے بالکل مختلف تھی اور ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ یہ پہلے سے میرے مطالعے میں آئے ہوئے نر سانپوں کے عضو تناسل سے مشابہ ہو۔‘اس کے بعد انھوں نے سانپ کی مختلف اقسام میں دریافت کیا جن میں اس طرح کے دو شاخے کلِٹُرِس پائے گئے، البتہ ان کی جسامت میں فرق تھا۔

اس دریافت کے بعد سانپ کے سیکس کے بارے میں نئے نظریات قائم کیے جا سکتے ہیں جن میں مادہ سانپوں کی شہوت اور لذت شامل ہو سکتی ہے۔فولویل کا کہنا ہے کہ اب تک سائنس دانوں کا خیال تھا کہ سانپوں کے درمیان جنسی تعلق ’زور اور زبردستی کا نتیجہ ہوتا تھا اور نر سانپ جنسی ملاپ کے لیے مادہ کو مجبور کرتے تھے۔‘
اس کی وجہ یہ تھی کہ جنسی ملاپ کے عمل میں نر سانپ عام طور پر کافی جارحانہ ہوتے تھے جبکہ مادہ زیادہ ’پر جوش‘ نہیں ہوتی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ ’اب کلِٹُرِس کی دریافت کے بعد ہم جنسی عمل پر مادہ سانپ کی آمادگی اور خود کو نر کے سپرد کرنے کا بہتر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔‘وہ کہتی ہے کہ ’ان کے برتاؤ سے لگتا ہے کہ وہ مادہ جنسی عمل کے لیے آمادہ کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سانپ کی بعض اقسام میں کلِٹُرِس انتہائی نازک اور چھوٹا ہوتا ہے، ایک ملی میٹر سے بھی کم۔
 دریافت فولویل کے ’نئے نقطۂ نظر‘ کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔’اس دریافت سےظاہر ہوتا ہے کہ سائنس میں پیشرفت کے لیے کس طرح مفکرین کا مختلف الخیال ہونا ضروری ہے۔‘