قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ بل پر سب کمیٹی بنا دی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات نےپاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی کے مجوزہ بل پر سب کمیٹی بنادی ،پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی پر وزیر فواد چوہدری نے کمیٹی کوبریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ مجوزہ بل پر میڈیا ورکر کی جاب سیکورٹی اور فیک نیوز کے علاوہ پر چیز پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں ،اینکر پرسن پر غداری کے مقدمات میں نے ہونے نہیں دیئے، پاکستان میں میڈیاآزاد ہے ،ایک ایجنڈے کے تحت پاکستان میں پروپیگنڈہ کیاجارہاہے ،بین الاقوامی قانون ملکوں کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں،پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی پر سب سے بات ہوئی ہے پہلی بار بل لانے سے پہلے متعلقہ قائمہ کمیٹی کوعتماد میں لیاہے ،پولیس حکام نے بتایاہے کہ صحافیوں پر حملوں کے کیس میں نادرا نے جواب دےدیاہے کہ تصویراور فنگر پرنٹ میچ نہیں ہوسکے ،کیسوں کوحل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس آج چیئرمین میاں جاوید لطیف کی سربراہی میں ہوا۔اجلاس میں رکن صائمہ، آفتاب جہانگیر، مولانا اکبر چترالی، ناصر خان، مریم اورنگزیب، ندیم عباس، ذولفقار علی، اکرام چیمہ، سعد وسیم ،طاہر اقبال کنول شوزب ودیگر نے شرکت کی۔کمیٹی میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری ،وزیر مملکت فرخ حیبب سیکرٹری اطلاعات آئی جی اسلام آبادپولیس ودیگر حکام کے علاوہ صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ آئی جی اسلام آباد نے کمیٹی کوبتایاکہ کسی صحافی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہے پولیس صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مکمل کام کیا جارہاہے۔پولیس حکام نے بتایا کہ اسد طور کے کیس میں نادرا سے جواب آ گیا ہے نومیچ کا رزلٹ آیا ہے اس کیس کو ہر اینگل سے دیکھ رہے ہیں۔جیو فینسنگ کے حوالے سے ٹائم لگے گا۔
چیئرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے کہاکہ صحافیوں پر حملوں کے حوالے سے کیسوں کی کیا پیش رفت ہے، مطیع اللہ جان ،حامد میر، ابصار عالم کے کیس کا کیا بنا، اسلام آباد میں ملزم کا پتہ نہیں ملتا تو باقی جگہوں پر کیا ہوگا، جوہر ٹاﺅن کا واقع 48گھنٹوں میں حل ہوگیا تھا، وہاں پہنچ سکتے ہیں تو یہاں اسلام آباد میں کیوں نہیں پہنچ سکے،4کیسوں میں سے ایک پر بھی ہیش رفت نہیں ہوئی ہے۔آئی جی اسلام آباد نے بتایاکہ اسلام آباد میں 19سو کیمرے لگے ہیں 70فیصدعلاقے کو یہ کیمرے کور کرتے ہیں مزید کیمرے لگائے جارہے ہیں امید ہے کامیابی ہوگی۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جب کیمرے نہیں لگے تھے تو بھی ملزمان تک پہنچتے تھے مگر اب کیمرے ہیں مگر ملزم نہیں پکڑا جارہاہے، کسی ایک کیس میں بھی پیش رفت نہیں ہورہی ہے اور مزید واقعات ہورہے ہیں،یہ صرف صحافیوں کے ساتھ کیوں ہورہاہے میڈیا کے وہ لوگ جو تنقید کرتے ہیں وہی کیوں ٹارگٹ ہورہے ہیں ؟آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ ہم کوشش کررہے ہیں ہم پورے کیس کو ری ویو کریں گے۔
ابصار عالم نے آئی جی پولیس سے سوال کیاکہ کیا مجھے محفوظ تصور کرنا چاہیے حامد میر کی گاڑی پر بم لگایا مگر کیس حل نہیں ہوا مطیع اللہ جان، اسد طور، ودیگر پر حملہ ہوئے مگر کوئی حل نہیں ہوا۔ 19سوکیمرے جن سیکٹروں میں لگے ہیں وہاں پر کیس ہوئے ہیں اس کے باوجود کوئی کلو نہیں مل رہاہے مجرمان آئی جی صاحب آپ کو چیلنج کررہے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد پولیس نے کہاکہ ہم حفاظت کرنے کی مکمل کوشش کریں گے کرائم کو روکنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جتنے وسائل ہیں اتنی کوشش کی جارہی ہے۔
وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ صحافیوں پر حملوں کے حوالے سے تمام متعلقہ حکام سے میٹنگ کی ہے،چیمین کمیٹی نے کہاکہ وزیر داخلہ شیخ رشیداحمدصحافی اسد طور کے کیس میں کہے چکے ہیں کہ ہم ملزمان کے قریب پہنچ گئے ہیں مگر ابھی بھی اس حوالے سے کچھ نہیں ہوا ہے، کیا وزیر نے خبر بنانے کے لیے کہاتھا ؟ وزارت داخلہ حکام نے کہا کہ دو ہفتوں کا وقت دیا جائے سب اداروں کو اکٹھا کرکے کیس کو دیکھیں گے۔صحافی اسد طور نے کہاکہ پولیس نے کہا تھا کہ آپ کے کیس میں سب سے زیادہ شواہد ہیں مگر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے ہمیں ایف آئی اے سے نوٹس ہورہے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اگر سیکرٹری وزارت داخلہ آنا پسند نہیں کرتے تو اگلا اجلاس ان کے دفتر میں بلالیتے ہیں۔چھوٹے وزیر آگئے ہیں بڑے وزیر بھی آجائیں گے،اگر صحافیوں کا تحفظ نہیں کرسکتے تو کہے دیتے ہیں کہ آپ کا اللہ ہی حافظ ہے اور ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں۔صائمہ ندیم نے کہاکہ بتایا جائے نادرا کے رپورٹ میں کیا لکھا ہے؟پولیس نے بتایاکہ ویڈیو اور فنگر پرنٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ نو میچ یعنی کہ شناخت نہیں ہوسکی۔،
رکن سعد وسیم نے کہاکہ صحافیوں کےکیس حل کرنے میں ادارے مخلص نہیں ادارے گیند ایک سے دوسرے ادارے کی طرف پھینک رہے ہیں، اس کمیٹی میں ہماری توہین کی جارہی ہے۔ سیکرٹری پی ایف یوجے ناصرزیدی نے کہاکہ صحافیوں کے کیس کو جان بوجھ کر خراب کیا جارہاہے۔چئیرمین کمیٹی نے کہاکہ پچھلا اجلاس بھی وزیر اطلاعات کے کہنے پر رکھ گیا مگر آج بھی اجلاس میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹا وزیر بھی لیٹ آتاہے اور بڑے وزیر 12 بج رہے ہیں مگر ابھی تک نہیں آئے۔ناصر خان نے کہاکہ آج کا چھوٹا اوربڑا وزیر انٹرسٹ نہیں لے رہا تو 9سال پہلے حامد میر پر حملہ ہو تو اس پر وقت آپ کی حکومت تھی تو اس وقت یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہوا۔مریم اورنگزیب نے کہاکہ یہ میٹنگ ایسے ہی ہوگی پارلیمنٹ میں یہ رپورٹ پیش کرنی چاہیے کہ صحافیوں پر حملے کی یہ اپڈیٹ ہے اس طرح اس کا حل تلاش کیا جائے، اس ایجنڈے پر 6میٹنگ ہوگئی ہیں۔ چیرمین نے کہاکہ 6میٹنگ ہوگئی ہیں مگر اس کا کوئی حل نہیں نکلاہے حامد میر پر حملے ہمارے دور میں ہواتھا ہمارے وزیر اعظم حامد میر کے پاس گئے تھے اور کہا تھا کہ ہم قلم کے ساتھ ہیں اور اس کا نتیجہ ہم نے بھگتا تھا۔ہم بات کرتے ہیں تو ڈان لیکس بن جاتی ہے اور کوئی اور وہی بات کرتا ہے کہ پہلے گھر کو صاف کیا جائے تو وہ قومی مفاد کی بات بن جاتی ہے۔12سال پہلے کیس کا فیصلہ نہیں ہواتو غلط ہواتھا۔
اینکر پرسن حامد میر نے کہاکہ بم کیس 2012کا کیس ہے اور پیپلزپارٹی کے دور ہواتھا۔بم جس نےلگایا اس کا نام احسان اللہ احسان تھا جس نمبر سے اس کو کال گئی وہ بھی پتہ چل گیا مگر پولیس نے کہاکہ ہم نہیں پکڑ سکتے۔ احسان اللہ احسان پکڑا گیا اور دوبارہ بھاگ بھی گیا۔مسلم لیگ ن کے دور میں حملہ ہوا تھا اس دور میں میرے چینل پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور معافی منگوائی گئی حالانکہ میں نے معافی نہیں مانگی اگر اسلام آباد پولیس کو مضبوط کیا جائے تو اس کیس کو حل کیا جاسکتا ہے،جس پر چیرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے کہاکہ ہماری حکومت میں کچھ لوگ بہت طاقتور تھے اور وہ یہ کام کررہے تھے۔
وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہاکہ اسد طور کی ایف آئی آر درج کرنے میں فواد چوہدری نے کردار ادا کیا۔یہ معاملات وزارت داخلہ سے متعلقہ ہیں صحافیوں کی حفاظت کے حوالے سے بل کمیٹی میں ہے تین ماہ سے کمیٹی میں ہے اور اگے نہیں بڑ رہاہے۔ صحافیوں کے حوالے سے کیسوں پر ہم سنجیدہ ہیں کہ ان کو حل کیا جائے۔فواد چوہدری نے کہاکہ ہم نے پچھلی مرتبہ اجلاس بلایا تھا مگر ارکان نہیں آئے صحافیوں پر حملے کے زیادہ کیس سندھ میں ہوئے ہیں۔ابصار عالم صحافی نہیں وہ تو ٹی وی پر کہے چکے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے کارکن ہیں۔رکن کمیٹی ندیم عباس نے کہاکہ اسلام آباد میں صحافیوں پر حملہ ہوا اس پر بات کی جائے جس پر فواد چوہدری نے کہاکہ وہ(ابصارعالم) صحافی نہیں ہیں اس طرح تو سارے کریمنل کیس کمیٹی میں لے آئیں۔اینکر عاصمہ جہانگیر اور حامد میر صحافی ہیں ان پر غداری کا مقدمہ میں نے ہونے نہیں دیا۔پاکستان میں صحافت آزاد ہے۔اسد طور بھی کیا صحافی ہے؟ رکن کمیٹی جوریہ نے کہاکہ آزادی اظہار رائے کا کوئی قانون ہے اگر نہیں ہے تو کیا کررہے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہاکہ ابصار عالم کا کیس داخلہ کمیٹی میں لے جائیں۔ اگر اس کو کمیٹی میں لیتے ہیں تو تمام کریمنل کیس اس کمیٹی میں آنا چاہیے۔صحافی کو پی آئی ڈی سے کریٹیڈ ہونا چاہیے وہی صحافی ہوگا۔ابصار عالم نے کہاکہ پی آئی ڈی میں رجسٹر صحافی صحافی نہیں ہوتا ہے ،جو ٹویٹر استعمال کررہاہے اور فری لانس کررہاہے وہ بھی صحافی ہی ہے۔فواد چوہدری نے کہاکہ آگر آپ کی تعریف مان لیں تو پاکستان کے تمام لوگ صحافی بن جاتے ہیں، رپورٹر اصل صحافی ہوتا ہے پی ایف یو جے کے چھ سے سات دھڑے ہیں رپورٹر صحافت کی ریڈ کی ہڈی ہے۔پاکستان میں سب سےزیادہ آزادی ہے، حامد میر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جو بات پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندی کی بات کرتے ہیں وہ بین الاقوامی ایجنڈے ہے تاکہ ایف اے ٹی ایف اور جی ایس پی پلس سٹیسٹس واپس لینے کے لیے ہورہاہے۔مریم اورنگزیب نے کہاکہ فواد چوہدری نے جو بات کی ہےاس کی مذمت کرتی ہوں۔ کمیٹی جن کو صحافی سمجھتی ہےان کو مدعو کیا ہے۔
وزیر اطلاعات نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ میڈیا جو باتیں چل رہی ہیں وہ سابقہ دور کا بل تھا جس پر نام ہمارے بل کا دیا گیا۔ آج کے دور میں فیک نیوز اور اصل خبر کو الگ کرنا اصل کامیابی ہے۔پاکستان پر پابندی لگانے کا ٹرینڈ افغانستان سے چلایا جارہاہے۔ افغانستان کی سابقہ این ڈی ایس نے 17سو لوگ بھرتی کرکے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا تھا۔سی پیک کے خلاف ہر رو دو تین کالم لکھے جارہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن کی قیادت نےبل پڑھے بغیر مسترد کردیا اب پتہ نہیں آپ کی کیا رائے ہوگی۔ ایک ٹی وی چینل نے خبر چلائی کہ تحریک انصاف کی ایک خاتون ترجمان نے کہاہے کہ وہ افغانستان سے مل کر کشمیر آزاد کرائیں گے جو بعد میں بھارتی چینل نے اٹھا لیا۔ذمہ دار صحافت کوفروغ دیں گے۔پاکستان میں سیٹلائٹ چینل تعداد114ہیں بہت سے چینل نے انٹرٹینمنٹ چینل کا لائسنس لیے ہیں مگر چل نیوز چینل رہے ہیں۔258ریڈیو چینل ہیں 2کڑور صارفین کیبل پر چلے گئے ہیں۔1172اخبارات رجسٹرڈ ہیں نیوز ایجنسی 399ہیں بہت بڑی تعداد ڈمی اخبارات کی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے مریم اورنگزیب کی سربراہی میں کمیٹی بنادی جس کی رکن کنول شوزب اور نفیسہ شاہ رکن ہوںگی۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بسنتی تین عاشق۔۔۔ ایک قتل ہوا مگر کیسے اور کس نے کیا۔۔۔؟