انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام نہیں: سپریم کورٹ

Feb 27, 2023 | 12:26:PM
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کیلئے مشاورت کرنا ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام نہیں، صاف شفاف انتخابات منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کیلئے مشاورت کرنا ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام نہیں، صاف شفاف انتخابات منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد ازخود نوٹس کیس کی سماعت 5 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کر کے ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا تھا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

عدالت کے حکم پر اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہیں کی، گورنر کے انکار پر 48 گھنٹے میں اسمبلی ازخود تحلیل ہوگئی، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کے سوال پر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ گورنر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر ازخود اسمبلی تحلیل ہوجانے میں فرق ہے۔ وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

 جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے ؟ علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمہ دار ہے اسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن میں تاخیرکو جسٹیفائی کرے، کیا کوئی انتخابات میں تاخیر کرسکتا ہے؟

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کرسکتا، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے۔

علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہاہیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے، عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہونی تھی، ہائیکورٹ نے مقدمہ موخر کر دیا ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ موخر ہوا ہے ؟ وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس لیے ہائیکورٹ سے موخر ہوا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا توہین عدالت کی آپشن کیا استعمال کی گئی۔ جس پر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ 14 فروری کو توہین عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا، الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا۔

وکیل علی ظفر نے موقف اپنایا کہ صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کا اعلان کرنے کا کہا گیا، لاہور ہائیکورٹ میں جاری انٹراکورٹ اپیل میں کوئی حکم امتناع نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری معلومات میں جواب نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر مملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے، ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتحابات کیلئے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب تک تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا تو انتحابات ہونے سے متعلق کیسے پتا چلے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک مہینہ گزر گیا ہے تاحال کوئی اعلان نہیں کیا جاسکا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے ؟ جس پر وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر کے پی نے اپنے خط میں سکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے، انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں تین آئینی درخواستیں زیر التواء ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو ؟ قانونی نکتہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کے پی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کے پی میں انتخابات کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی ؟ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشتگردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کیلئے مشاورت کرنا ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام نہیں، صاف شفاف انتخابات منعقد کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا

قبل ازیں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی ہے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا۔ جس میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ  نے اختلافی نوٹ میں  لکھا ہے کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں بینچ میں شامل ایک جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔ بار کونسلز نے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے دیگر سینئر ججز کی بنچ پر عدم شمولت پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2 سینئرججز کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا ہے کہ آڈیو لیک کے بعد عوام میں تنازعہ کھڑا ہوا۔آڈیو بینچ میں موجود ایک جج سے بھی متعلقہ ہے۔ایک جج کی آڈیو سے متعلق عدالت کے اندر اور باہر آواز اٹھی۔سپریم کورٹ نے کوئی جواب دیا اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سےجواب آیا۔یہ خبر بھی شائع ہوئی پاکستان کونسلز نے ایک جج کیخلاف جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

نوٹ کے مطابق جج پر لگائے گئے ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیں۔ایسے جج جس پر الزام ہے اسے بینچ میں شامل کرنا نامناسب ہے۔یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب دیگر سینئر ججز کو بینچ میں شامل نہ کیا جائے۔دو ججز اپنی واضح رائے دے چکے ہیں اس لیے انھیں شامل نہیں ہونا چاہیے۔عدلیہ کی اصل طاقت عوام کا اعتماد ہے۔عدالتی کی غیر جانبداری اور شفافیت ایسی ہونی چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں اہم سوال اٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہےکہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے، میں نے جب عدالت میں آئینی نکات اٹھائے تو چیف جسٹس نے انہیں شامل کرنے پر اتفاق کیا، میرے سوالات پر بینچ کےکسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، کھلی عدالت میں میرے سوالات کو شامل کرکے حکم نامہ لکھوایا گیا، چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، جہاں آئین کی تشریح اس عدالت کا اختیار ہے وہاں آئین کا تحفظ بھی اسی عدالت کا کام ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنےکی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے  والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی  عدالت کے  سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور  معاملے کو  دیکھنے سے  پہلے اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت  دیکھنا ناگزیر ہے، صوبائی اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت کو  نظر انداز  نہیں کیا  جاسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے، اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ

جسٹس جمال خان مندوخیل نےاپنےاختلافی نوٹ میں آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ غلام ڈوگر کیس سے متعلق آڈیو سنجیدہ معاملہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی الیکشن سے متعلق پہلے ہی اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں۔

نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ دونوں ججز کا موقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہیے۔دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آڑٹیکل 10 اے پر غور نہیں کیا۔ان حالات میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا پے کہ الیکشن سے متعلق درخواستیں لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔الیکشن سے متعلق درخواستیں پشاور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائیکورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں۔ میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔