امریکا اور چین کو قریب لانا چاہتے ہیں ۔۔عمران خان

Feb 08, 2022 | 19:34:PM
امریکا ۔چین۔کردار۔بھارت۔کشمیر۔چینی میڈیا۔انٹرویو
کیپشن: وزیر اعظم عمران خان۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (نیوز ایجنسی)وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر پر تنازع ہے،جلد یا بدیر بات چیت سے مسئلہ حل کرلیں گے،امریکا اور چین کو قریب لانے میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں،دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
چینی ٹیلیویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات ایسے منفرد ہیں جو ہر امتحان پر پورے اترے ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات جس بھی مشکلات سے گزرے ہر امتحان میں سرخرو رہے، درحقیقت یہ تعلقات مضبوط تر ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم جزو ہے، میرا خیال ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے، یہ مواصلات اور بجلی کی پیداوار سے شروع ہوا تھا اور اب ہم اسے اگلے مراحل یعنی انڈسٹرلائزیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سب سے بڑھ کر زرعی شعبے میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں۔سکولوں میں بڑی پابندی لگانے کا فیصلہ۔۔اپوزیشن نے معاملہ افسوسناک قرار دیدیا

وزیراعظم نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب زراعت بہت اہم ہے ہمیں فوڈ سکیورٹی کی ضرورت ہے اس لئے زرعی پیداوار بہتر بنانے کے لئے ہم چین کے ساتھ اشتراک کرنا چاہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے خطے میں استحکام ہے، بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور کسی حد تک چین کا بھی مسئلہ ہے وہ بھارت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے تمام اختلافات سیاسی بات چیت سے حل کرنے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے بھارت میں ایک ایسی حکومت ہے جو انتہا پسند ہے ، اس حکومت کے ساتھ ہمارے لئے آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہورہا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ جلد یا بدیر ہم اسے بات چیت کے ذریعے حل کرلیں گے لیکن اس کے علاوہ پاک چین تعلقات خطے میں استحکام لائے ہیں۔افغانستان پر چین اور پاکستان کے اتفاق رائے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ افغان عوام کی بات ہے اور پاکستان اور چین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی قوم نے اتنے مسائل کا سامنا نہیں کیا جتنا افغان عوام نے کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ 40 سال انہوں نے صرف جنگ دیکھی ہے اور پہلی مرتبہ امن کا موقع ہے کہ اس وقت افغانستان میں کوئی تنازع نہیں ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ وہاں انسانی المیہ رونما ہورہا ہے کیوں کہ افغانستان کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ جب بیرونی امداد بند ہوگئی تو پوری حکومت ایک تشویشناک بحران میں ہے وہ خدمات فراہم نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں ہے اور ان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی منجمد ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ چین، پاکستان اور بہت سے دیگر ممالک بشمول یورپی ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طالبان حکومت کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کو ایک جانب رکھتے ہوئے ذہن میں صرف 4 کروڑ افغان عوام کو رکھا جائے جن میں سے نصف غذائی عدم تحفظ کی بدترین صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ پاکستان اور چین کے معاشی تعلقات بالخصوص سی پیک کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ یہ منصوبہ انتہائی اہم ہے، چین کی جانب سے مواصلات اور بجلی کی پیداوار کے لئے چینی سرمایہ کاری ایک ایسے وقت میں آئی جو پاکستان کے لئے انتہائی نازک وقت تھا، اس وقت ہمیں 2 طرح کے مسائل کا سامنا تھا ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ جس سے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔انہوںنے کہاکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 80 ہزار جانوں اور کئی سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہماری کرنسی کی قدر آدھی رہ گئی۔انہوں نے کہا کہ اس سب سے بڑھ کر ہماری 2 انتہائی بدعنوان حکومتیں مالی بحران کا سبب بنیں، لہٰذا چین ہمارے سب سے مشکل وقت میں سامنے آیا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارے لوگ چین سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ضرورت کے وقت کام آنے والے دوست کو آپ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اب سی پیک دوسرے مرحلے کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں ہماری صنعتی زونز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شامل ہے، پاکستان اپنے ٹیکنالوجی زونز میں سرمایہ کاری کے لئے زبردست مراعات دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس علاوہ زراعت کا شعبہ ہے جس میں ہمیں اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے تعاون اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہم نے چینی کمپنیوں کے ساتھ سمجھوتے کیے ہیں جو باہمی طور پر مفید ہوں گی اور چینی کمپنیوں کو ہمارے ہاں سرمایہ کاری سے بہت فائدہ ہوگا اور پاکستان ٹیکنالوجی کی منتقلی سے فائدہ اٹھائےگا۔پاک چین تعلقات مزید کن شعبوں میں بہتر ہوسکتے ہیں کہ جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے ہمیشہ سے تعلقات زیادہ تر جیو اسٹریٹیجک رہے ہیں تاہم جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہم نے جیو اکنامک کو ترجیح دی ہے تا کہ لوگوں کو غربت سے نکالا جائے۔انہوں نے کا کہ ہماری 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ہمارا مقصد انہیں اس سے باہر نکالنا ہے جس کے لیے چین ہمارا رول ماڈل ہے کیوں کہ تاریخ میں کبھی کسی ملک نے اتنی بڑی تعداد کو اتنی کم مدت میں غربت سے نہیں نکالا کہ انہوں نے 35 سے 40سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا اور حال ہی میں چینی صدر سے اعلان کیا کہ چین سے شدید غربت ختم ہوگئی ہے،ایسا انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم چین سے سیکھنا چاہتے ہیں اور ہم نے اس پر اجلاس بھی کیے کہ ہم کس طرح دولت پیدا کریں اور اسے نچلی سطح کے لوگوں کو غربت سے نکالیں۔کورونا وبا سے ہونے والے اقتصادی نقصان کے تناظر میں پاک چین اشتراک کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ میں فخر سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے بہت سے دیگر ممالک سے بہت بہتر انداز میں عالمی وبا کا مقابلہ کیا، ہم ان 3 بہترین ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے وبا کو بہتر انداز میں سنبھالا۔انہوںنے کہاکہ ہم نے وبا سے اپنے لوگوں کو اور معیشت کو دونوں کو بچایا اور ہم نے چین سے بہت کچھ سیکھا، جب وبا شروع ہوئی تو ہمارا چین سے قریبی تعاون تھا اور جب ویکسین تیار ہوگئی تو ہمیں چین سے انتہائی اہم وقت میں مدد ملی۔پاک چین تعلقات کی وجہ سے امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کی رپورٹس کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ میں نے یورپی یونین کو بنتے دیکھا اور دیکھا کہ تمام یورپی ممالک میں معیار زندگی بہتر ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ یہ کشیدگی ایک اور سرد جنگ کی شکل اختیار نہ کرلے جہاں ہمیں فیصلہ کرنا پڑے کہ ہمیں کس کا ساتھ دینا ہے، ہمارے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور چین کے ساتھ انتہائی مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے اگر آپ کے چین سے تعلقات ہیں تو دیگر ممالک سے ختم کرنے ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان 70 کی دہائی والا کردار ادا کرنا چاہتا ہے جب پاکستان نے امریکا اور چین کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور ڈاکٹر ہنری کسنجر کے دورے کا اہتمام کیا تھا، ہم یہ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ میری ترجیح پاکستان کے 22 کروڑ عوام ہے اور صرف معاشی بہتری سے ہی لوگوں کو غربت سے نکالا جاسکتا ہے جو امن اور استحکام سے آتی ہے کیوں کہ تنازع سے سب سے پہلے معیشت متاثر ہوتی ہے اور یہ آخری چیز ہوگی جو ہم چاہیں گے۔
 یہ بھی پڑھیں۔گھبرانا نہیں۔۔۔کورونا کے مزید ویرینٹ بھی آئیں گے۔۔وزیر اعظم نے خبردار کر دیا