مولانا فضل الرحمان اور ڈونکی ڈاکٹرائن 

تحریر:احمد منصور

May 04, 2024 | 21:08:PM
مولانا فضل الرحمان اور ڈونکی ڈاکٹرائن 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

کہانی بہت پرانی ہے لیکن جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے انداز سیاست پر بہت صادق آتی ہے ، کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی اپنے گدھے پر نمک بیچنے کا کام کرتا تھا ، اس کے گھر سے بازار کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹی سی ندی آتی تھی ، ایک دفعہ حادثاتی طور پر گدھا ندی سے گزرنے کے دوران پانی میں گر گیا ، دیہاتی نے بہت زور لگا کر گدھے کو اٹھایا اور دوبارہ عازم سفر ہو گیا ، اس دوران بہت سا نمک پانی میں گھل کر ندی میں بہہ گیا ۔

 گدھے نے محسوس کیا کہ ندی میں گرنے کی وجہ سے اس کی پشت پر موجود بوجھ کم ہو گیا ہے ، چنانچہ پھر اس نے عادت ہی بنا لی اور ندی سے گزرتے ہوئے جان بوجھ کر گر جاتا اور اپنی پشت پر لدا ہوا بوجھ کم کر لیتا ، گدھے کی اس "واردات" سے جسے "ڈونکی ڈاکٹرائن" بھی کہتے ہیں ،گدھے کے مالک کو بہت سا مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا ، ایک روز اسے ترکیب سوجھی اور اس نے نمک کی بجائے گدھے پر کپاس لادی اور ندی والے راستے پر چل دیا ، گدھا بوجھ کم کرنے کیلئے حسب عادت ندی میں گر گیا ، لیکن اس بار چونکہ پشت پر کپاس لدی ہوئی تھی ، اس لئے مالک کی مدد سے جب وہ اٹھا تو کپاس گیلی ہو جانے کی وجہ سے بوجھ بہت بڑھ گیا اور اس کی کمر دہری ہونے لگی ، مالک نے بھی ڈنڈا اٹھا لیا جس پر پھر گدھے کو دگنے بوجھ کے ساتھ باربرداری کرنی پڑی ، کہتے ہیں کہ اس تلخ تجربے کے بعد گدھے نے پھر کبھی ندی میں گرنے کا ڈرامہ نہیں کیا ۔

مولانا فضل الرحمان کو کسی زمانے میں ریاست ،  ریاستی اداروں اور مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کر کے اقتدار میں اپنے سیاسی قد سے زیادہ حصہ کیا ملتا رہا کہ انہوں نے بھی ڈونکی ڈاکٹرائن اپناتے ہوئے یہ عادت ہی بنا لی کہ جب کبھی عام انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہ  ہوئی سیاسی بلیک میلنگ کے اسی فارمولے پر عمل شروع کر دیا کہ جو 1990ء ، 2000ء اور  2010  کے عشروں میں بہت کار آمد ثابت ہوتا رہا تھا ، ان تین عشروں میں یوں ہوا کہ ہر بڑی سیاسی جماعت کے دور حکومت میں انہیں اپنے سیاسی قد کاٹھ سے بہت زیادہ حصہ ملتا رہا ۔

پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق ، پھر پیپلز پارٹی اور ایک بار پھر مسلم لیگ ن اقتدار میں آئیں ، ملک میں مین سٹریم پارٹیاں بدلتی رہیں لیکن "ڈونکی ڈاکٹرائن" کے ذریعے مولانا ہر دور میں شریک اقتدار ہوتے رہے ، 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات پہلی بار ایسا ہوا کہ مولانا اپنے "ہوم پراونس" میں بھی بدترین شکست سے دوچار ہو گئے ، اس عبرتناک شکست پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مولانا اپنے طرز عمل اور طرز سیاست پر کچھ غور کرتے اور اپنے فکر و عمل اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتے لیکن انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی سابق اتحادی سیاسی جماعتوں کو سینگوں پر اٹھا لیا اور ریاست و ریاستی اداروں کیخلاف بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی ، نئے اور پرانے دوستوں نے ان کو بہت سمجھایا کہ مولانا ہتھ ہولا رکھو ، اتنی بھی کیا  بے صبری ہے لیکن یہ کمبخت اقتدار کی مے  چیز ہی ایسی ہے کہ اس کے نشے کیلئے مولانا کی طلب ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ۔ اور "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" والا معاملہ بنا ہوا ہے ۔

سابق وزیراعظم میاں  محمد نواز شریف نے مولانا کے سمدھی گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کو چند روز قبل جاتی امرا میں مدعو کر کے یہ پیغام بھی بھجوایا ہے  کہ مولانا  تھوڑا بریک پر پاؤں رکھیں آپ کو بہت باعزت طریقے سے اکاموڈیٹ کرنے کا راستہ نکالا جائے گا لیکن کراچی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے تو ایک بار پھر حد ہی کر دی ہے اس پر میاں صاحب بھی حیران و پریشان ہونگے اور دل ہی دل میں کہہ رہے ہونگے کہ ،
کتنا اونچا تیرا قد ہے ، حد ہے 
اس پر بھی حسد ہے ، حد ہے 
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر 
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے

کراچی میں اپنی پارٹی کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے  مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل باجوہ نے انہیں بتایا تھا کہ پاک افغان سرحد پر اربوں روپے خرچ کر کے باڑ لگائی گئی ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان غیر قانونی آمد و رفت بند ہو گئی ہے ، جنرل باجوہ کے ساتھ اپنی اس مبینہ گفتگو کا حوالہ دے کر مولانا نے اپنی توپوں کے منہ کھول دیئے اور کہا کہ اگر پاک افغان سرحد کو واقعی محفوظ بنا دیا گیا تھا تو پاکستان سے 30 ہزار مسلح نوجوان امریکہ کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کیلئے پاکستان سے افغانستان کیسے جا سکتے تھے ؟ اپنے اس حیران کن اعداد و شمار والے دعوے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مولانا نے یہ بھی  فرمایا کہ افغان طالبان کی امارات اسلامیہ افغانستان کے قیام کے بعد پھر  یہ پاکستانی نوجوان اس سے بھی بڑی تعداد میں پاکستان واپس  کیسے آگئے ؟ مولانا نے افواج پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے سوال داغا کہ اگر سرحد پر باڑ لگائی جائے تو اتنی بڑی تعداد میں لوگ پاکستان میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں ؟ 

مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستانی افواج کی طرف سے کیئے جانے والے انسداد دہشت گردی آپریشنوں کی وجہ سے   قبائلی لوگ بے گھر ہوئے اور ہماری خواتین بھیک مانگنے پر مجبور کر دی  گئیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا دہشت گردی کے خلاف ریاست کی  کارروائیوں کی وجہ  سے ملک میں دہشت گردی کے پھیلاؤ میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے؟

اپنے ڈونکی ڈاکٹرائن کے تحت  اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام  ٹھہراتے ہوئے مولانا نے مزید کہا کہ ہم پاکستانی اور محب وطن ہیں ، لیکن یہاں حب الوطنی کا معیار کچھ اور ہے،اگر آپ ملک اور اس کی مٹی سے مخلص ہیں تو اس کی کوئی قدر  نہیں کی جاتی ، آپ کو اسی وقت اپنا اور  محب وطن قرار دیا جائے گا کہ جب آپ فوج کے بوٹ چاٹیں گے ،مولانا نے 30 ہزار مسلح  پاکستانی نوجوانوں کے افغانستان جا کر امریکی فوج کیخلاف جنگ لڑنے کا جو دعویٰ کیا ہے وہ انتہائی حیران کن ہے ، اتنی بڑی تعداد میں مسلح پاکستانی نوجوانوں کے افغانستان کے اندر جا کر چھاپہ مار جنگ میں حصہ لینے کا الزام تو کبھی کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں یا خود امریکہ بہادر نے نہیں لگایا ، مولانا کو نجانے 20 برسوں بعد یہ اعدادوشمار کہاں سے ہاتھ لگ گئے ؟ سیانے کہتے ہیں کہ ذائقہ چکھنے کے لیے ایک نوالہ ہی کافی ہوتا ہے پوری دیگ کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، بلیک میلرز کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر بات کو انتہائی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ۔

مولانا فضل الرحمٰن کے ان غیر منطقی دعوؤں پر کبھی کسی نے کان نہیں دھرا ، جھوٹ بولنا اور جھوٹے دعوے کرنا ان کے پولیٹیکل ڈاکٹرائن کا جزو لاینفک ہے  اور اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل ہوتے ہی ایسے تمام الزامات کو یکسر بھول جانے کا بھی وہ پرانا تجربہ رکھتے ہیں ، مولانا کے برعکس خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی عمائدین نے ہمیشہ پاکستان آرمی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت کا مظاہرہ کیا ہے  اور دہشت گردی کے خلاف انتھک جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کو ہمیشہ سراہا ہے ، خیبرپختونخوا میں مولانا کی جماعت کی حالیہ بدترین شکست کی ایک وجہ ان کی یہی جھوٹ کی مشین بن جانے والی پالیسیاں ہیں کہ جو موجودہ سوشل میڈیا ایج میں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور مولانا ہیں کہ اسی پرانے "ڈونکی ڈاکٹرائن" کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور نئے دور کے نئے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کیلئے تیار نہیں ۔ 
آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا 
منزل یہی کٹھن ہے ، قوموں کی زندگی میں

مولانا کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے مولانا کو اصل تکلیف یہ ہے کہ ان کی زیر سرپرستی بہت بڑے پیمانے پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو دو طرفہ اسمگلنگ ہوتی تھی اس میں رکاوٹ پڑ رہی ہے اور اسمگلنگ کا خاتمہ مولانا کے پیٹ پر لات مارنے والی بات ہے ، اس لیئے مولانا اپنی ہر تقریر میں افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ کا ذکر ضرور کرتے ہیں تاکہ سرحد کے دونوں طرف موجود طاقتور اسمگلرز سے ا کو تحفے تحائف کی صورت میں "ٹھنڈی ہوا" آتی رہے اور ان کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن پاک افغان بارڈر اور پاک ایران بارڈر پر ایرانی ڈیزل ، ایرانی پیٹرول اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کے دھندے کے بڑے اہم کردار تصور کیئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پہلے مسلم لیگ ن اور پھر پی ٹی آئی انہیں مولانا ڈیزل کے نام سے پکارتی رہی ، آج کل وہ اپنی پرانی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے ناراض ہیں اور اپنی سخت ترین ناقد اور بدترین مخالف سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ، مولانا کا اصل شکوہ تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے بنتا ہے کہ جنہوں نے 8 فروری کے عام انتخابات کے موقع پر اگلے پانچ سال کے اقتدار کی تقسیم کرتے وقت  ان کو سائیڈ لائن کر دیا ، لیکن مولانا نے اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف کر رکھا ہے  گویا ۔۔۔۔ وہ گرے گدھے سے ہیں اور غصہ کمہار پر اتار رہے ہیں ۔