جمہوریتیں، ڈیپ سٹیٹ اورجدید استبدادی نظام

تحریر۔۔۔اسلم اعوان

May 05, 2024 | 12:15:PM
 جمہوریتیں، ڈیپ سٹیٹ اورجدید استبدادی نظام
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

    گردش ایام کے باعث عدلیہ اور مقتدرہ کے مابین طویل پاور پارٹنرشپ ٹوٹنے اور سوشل میڈیا کی بدولت فیصلہ سازی کے عمل پہ رائے عامہ کے اثرانداز ہونے کی وجہ سے ہماری مملکت ان دنوں کئی پیچیدہ تغیرات کے نازک مراحل سے گزر رہی ہے،جس میں عدلیہ،مقتدرہ اور سیاسی قیادت کے علاوہ جمہوری آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کے متلاشی عوام بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،اگرچہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ سوشل میڈیا کی مدد سے حق حکمرانی کی جنگ میں عوام کا پلڑا بھاری رہے گا لیکن حقیقت شاید اس کے برعکس ہو کیونکہ رائے عامہ بنانے والے سوشل میڈیا ورکرز،یوٹیوبرز،صحافی اور تجزیہ کار خود ابھی تک جدید ریاستوں کے تصور اور رموز حکمرانی کی حرکیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں یعنی وہ خود اسی تصورکے اسیر ہیں جس سے ہمیں نجات دلانا چاہتے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے عالمی طاقتوں نے مسلح افواج کو عدلیہ کی معاونت سے ملکی سیاست پہ گرفت مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی تو ہماری مقتدرہ نے مذہبی عوامل کی تلویث سے عوام کو پاور پالیٹیکس کی جدلیات سے دور رکھ کر معاشرے میں فطری سیاسی ارتقاءکو منجمد اور فیصلہ سازی کے عمل کو طاقت کے مراکز تک محدود کر لیا ، فوج کی طرف سے کئی دہائیوں تک ملک پہ براہ راست حکمرانی کے علاوہ سیکیورٹی پیراڈائم کو جواز بنا کر منتخب وزرائے اعظم کے اختیارات پر بہت سی قدغنوں اور عدلیہ کے ذریعے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے عمل میں اسٹبلشمنٹ کی گہری شمولیت ملک پہ ڈیپ سٹیٹ کے الزام کا موجب بھی بنی تاہم 53 سال بعد جب افغانستان میں امریکی جارحیت کے نتیجہ میں طالبان جنگووں کی مسلح مزاحمت نے ریاستی مقتدرہ کو کمزور کرکے عالمی مفادات کے محافظ متذکرہ بندوبست کو توڑا تو ہمارے پاور اسٹریکچر کے اندر کئی حیران کن تبدیلیاں رونما ہونے لگیں،اسی تناظر میں2007 میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مشرف آمریت سے نجات کی خاطر وکلاءتحریک کی حوصلہ افزائی کرکے وکیلوں کی صورت میں ایسے طاقتور پریشر گروپ کو عدلیہ کی پشت پہ لا کھڑا کیا جو بالآخر ملک میں قانونی کی حکمرانی کا علم اٹھا کر طاقت کے نظام کا مستقل اسٹیک ہولڈر بنکر سامنے آیا تو عدلیہ مقبول اور ججز خوفزدہ ہوتے گئے کیونکہ عدلیہ کی مقبولیت پہلی بار ججز اور جرنیلوں کے محاسبہ کے مطالبات کا محرک بنی۔

بہرحال مشرف کے بعد جنرل کیانی آرمی چیف بنے تو انہوں نے پہلی بار ملک کو اندر سے درپیش خطرات کی ڈاکٹرئن متعارف کراتے ہوئے فوج کے لئے پس چلمن رہ کر ڈیپ سٹیٹ کی ایک نئی قسم متعارف کرائی جسے پہلے نواز شریف اور اب عمران خان نے جارحانہ مزاحمت کے ذریعے بیکار بنا دیا یقیناً ہمیں پاک فضائیہ کی پاسنگ آوٹ پریڈ سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خطاب میں اسی پسپائی کی گونج سنائی دیتی ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقتدرہ آسانی سے اقتدار چھوڑ کے بیرکس کو پلٹ جائے گی،البتہ ہمارے ریاستی ڈھانچہ پہ مسلط مقتدرہ کے لئے اصل مسلہ امریکی سرد مہری اور عدلیہ کی طرف سے اپنی آئینی حدود میں واپس سمٹنے کی خواہش ہے،ایک تو کابل سے انخلاءکے بعد زخم خوردہ امریکی اب پاکستان میں فوجی بالادستی کے طلبگار نہیں رہے دوسرے سوشل میڈیا کی جارحانہ تنقید نے عدالتی فعالیت کو بھی لگام ڈال دی ، اس لئے اب جوڈیشری عوامی مینڈیٹ کے حامل مقبول سیاستدانوں کو ٹھکانے لگانے کی خاطر کندھا پیش کرنے اور فوجی بالادستی کو ”قانون“کا نقاب ابہام پہنانے سے گھبرانے لگی ہے لیکن پھر بھی ریاستی مقتدرہ ججز کو پرانے ڈھب پہ لانے کی کوشش سے باز نہیں آئے گی، اس وقت یار لوگ جوڈیشری کے اندر موجود ذہنی تقسیم کو بڑھانے کےلئے صحافیوں،اینکرز اور سوشل میڈیا کے دونوں متحارب دھڑوں کو یکساں استعمال کر رہے ہیں، نواز لیگ سے وابستہ صحافی،ٹویپ اور یوٹیوبرز ، اطہرمن اللہ ،محسن اختر کیانی اور انکے ہم خیال ججز کی کردار کشی جبکہ تحریک انصاف سے جڑے صحافی،یوٹیوبرز اور ٹویپ قاضی فائز عیسی سمیت دیگر آزاد ججز کا نشانہ بنانے پہ مامور ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ میڈیا کے متذکرہ بالا دونوں جنگجو دھڑوں کو لاجسٹک اور خبری مواد ایک ہی قوت یعنی مقتدرہ فراہم کر رہی ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اس وقت دنیا بھر میں نظام ہائے جمہوریت ناکام، آزادی و مساوات کے نعرے بیکار حتی کہ میرٹ کے فلسفہ کا متروک ہو جانا ہے۔

مغربی دانشور کہتے ہیں قانون اور جمہوریت کو ابنائے سیاست نے ناجائز اہمیت دی ہے ،لاریب، فی الوقت مغربی معاشروں میں ادارہ جاتی جمہوریت کو ریاستوں کی بقاءکے لئے ناکافی سمجھا جانے لگا ہے،اب اجتماعی زندگی کی موثر تنظیم کے لئے دنیا بھر کے دانشور چین اور روس کی طرح جدید استبدادی ریاستوں کے ماڈل کو اپنانے پہ مجبور دیکھائی دیتے ہیں، چنانچہ اب جمہوریت کے موسس مغربی ممالک کی فلاحی ریاستیں بھی اپنے نظام ہائے مملکت میں اتھاریٹیرین رجیم کی خصوصیت اپناتے نظر آتے  ہیں اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری مصیبت زدہ نسل بھی اب جمہوری آزادیوں کی مشتاق نہیں رہی بلکہ وہ شدت کے ساتھ تحفظ ، نظم و ضبط اورامن کی خواہشمند ہے۔ علی ہذالقیاس، یوروپ سمیت امریکی بیوروکریسی جمہوری چیک اینڈ بیلنس کی خرابیوں سے بیزار ہے، مثال کے طور پر امریکی انتظامیہ کے لئے بھی سیاسی پولرآئزیشن کی وجہ سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کو نظم و ضبط میں رکھنا دشوار ہو گیا وہاں جمہوری آزادیوں کے باعث بیوروکریسی میں نسلی تعصب تحلیل ہونے کی بجائے مزید بڑھ کر حکومتی کارکردگی اور فیصلہ سازی کے عمل کو متاثرکر رہا ہے۔امریکہ میں ہر صدراتی انتخاب انتظامیہ میں تین سےچار ہزارکے درمیان اعلیٰ عہدیداروں کی تبدیلی کا سبب بنتا ہے، اس تغیر کا کوانٹم بتدریج بڑھ رہا ہے چنانچہ عصر حاضر کے پاپولسٹ اپنی تنقید کو انتہائی حد تک پہنچاتے ہوئے نہ صرف ریاستی طاقت کی مخصوص زیادتیوں پر بلکہ میرٹ اور مہارت پہ استوار حکومت کے تصور پر بھی حملہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمان اور ڈونکی ڈاکٹرائن

 دوسرا میرٹ کی بنیاد پر بیوروکریٹس کا انتخاب دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے خطرات کی زد میں ہے۔ میرٹ کریسی ایسی تکنیک ہے جو موجودہ اشرافیہ کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ قائم رکھنے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔ سیاسی طور پہ مقتدر اور امیر والدین اپنے بچوں کو بھاری فیسوں پہ اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھا کر انہیں طاقت اور اثر و رسوخ کے حلقوں میں داخل ہونے کے قابل بنا لیتے ہیں چنانچہ ”میرٹ“ انہی کو سوٹ کرتا ہے۔شاید اسی لئے امریکہ میں جدید عہد کے دانشوروں نسلی و مذہبی اقلیتوں، خواتین اور دیگر پسماندہ آبادیوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی بھرتی کے طریقوں میں تنوّع کے معیار کو متعارف کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر اعلی طبقات مصر ہیں کہ امریکی حکومت میں میرٹوکریٹک بھرتی اور پروموشن کو ترک کرنے سے حکومت کی تاثیر متاثر ہو گی ۔ قطع نظر اس بات کہ میرٹو کریسی سے حکومتی کارکردگی بڑھتی یا کم ہوتی ہے لیکن اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ چین کی طرح زیادہ سیاسی کنٹرول حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھانے والی ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ استبداد کی طرف بڑھنے کا فیصلہ اُن شہریوں کے مفاد میں ہو گا یا نہیں جو پہلے ہی حکومت کے کام کرنے کے طریقے سے ناخوش ہیں۔ امریکہ آج جب چین کے ساتھ طویل المدتی مقابلہ کی تیاریوں میں مصروف ہے، موخر الذکر اپنے آپ میں ایسی تہذیب کی تشکیل کا حامل ہے جو کئی صدیوں سے اعلیٰ معیار کی بیوروکریسی اور مہارت کے احترام کے گرد بُنی ہوئی ہے۔

اس کے سر پہ ایسے پاپولر ادارے مسلط نہیں جو اس کی طاقتور ریاست کے سامنے رکاوٹیں پیدا کرسکیں، جیسے یہاں حصول اقتدار کی پوشیدہ آرزوں کے حامل پریشر گروپ قانون کی حکمرانی اور جمہوری احتساب کے مقبول نعروں کی گونج میں ریاستی وجودکو وقف اضطراب رکھتے ہیں،اس کے برعکس امریکہ اسپیکٹرم کے دوسرے سرے پر بیٹھا ہے، طاقتور چیک اینڈ بیلنس اداروں کے ساتھ، وسیع لیکن اکثر غیر موثر ریاست اور ایسا سیاسی کلچر جو ریاستی اتھارٹی پر بہت زیادہ انحصار کے خبط میں مبتلا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اِس عالمی مقابلہ میں یوروپ و امریکہ کو غلبہ ملنا مشکل ہو گا کیونکہ امریکہ اپنی بیوروکریسی اور موجودہ ادارہ جاتی ڈھانچہ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ پائے گا اور آخر میں جس چیز کے لیے اسے کوشش کی ضرورت ہے وہ ہے توازن، بیوروکریٹک خود مختاری اور سیاسی کنٹرول کے درمیان توازن اور طریقہ کار کی تعمیل اور موثر نتائج کے درمیان یعنی چین سے مقابلہ کے لئے مکمل استبدادی نظام جو ایک جھرجھری کے ساتھ انسانی حقوق کے مفروضوں، مارکیٹ اکنامی کے وبال اور جمہوری آزادیوں کے فریب کی زنجیریں توڑ ڈالے۔