عدالتوں کی لائیو کوریج خوش آئند ، روایت برقرار رکھنی جاہیے: سلیم بخاری

Apr 30, 2024 | 23:34:PM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری نے عدالتوں میں اہم مقدمات کی لائیو کوریج کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس روایت کو جاری رکھنے کا مشورہ بھی دے دیا۔

سنئر تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ پہلی دفعہ ہے کہ لائیو کوریج کر کے اہم ترین ایشوز کو عوام تک لایا گیاہے ورنہ اس سے قبل تو عوام الناس کو پتہ نہیں ہوتا  تھا اور درپردہ ان اہم ایشوز پر فیصلے ہوجایا کرتے اور عوام کو تو خبر بھی نہیں ہوتی تھی ، یہ ایک اچھی روایت ہے کہ اہم ایشوز عوام کے علم میں لائے جاتے ہیں اور اس روایت کو  جاری رکھنا چاہئے۔ 

سلیم بخاری صاحب نے عدلیہ کی کارروائی کا تین حصوں میں تجزیہ پیش کیا سلیم بخاری صاحب کی رائے تھی کہ :

1) حکومتی رویئےپر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومت نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا وہ چاہے انصاف کا حصول ہو ، قانون سازی ہو  یا انصاف کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے سے متعلق تھا، کھلے لفطقوں میں کہا گیا کہ حکومت نے اپنا کام نہیں کیا ۔ 

2) ججوں نے عدلیہ میں اپنے اندر نظم و ضبط اور کارگردگی پر زور دیا ہے ۔

3) عدلیہ کے پاس اختیار تو ہے لیکن انہوں نے اس کا استعمال نہیں کیا، اگر کوئی بھی قوت عدلیہ کے فیصلوں میں رکاوٹ بنے تو  عدلیہ کے پاس توہین عدالت  بڑا کا اختیار ہے جو وہ استعمال کر کے عدلیہ کی کارکردگی کو یقینی بنا سکتے ہیں, اگر ججز کمزوری دیکھائینگے اور وہ جرات کا مظاہرہ نہیں کرینگے تو عدلیہ میں مداخلت ہوتی رہے گی جس کا نتیجہ 6 ججز کا خط ہے۔

خفیہ اداروں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو 76 سال لگے یہ کہنے میں کہ ادارے کس کے انڈر کام کر تے ہیں ، اور وہ کس قانون کے تحت مداخلت کرتے ہیں ۔

عدلیہ کے رول سے تعلق ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور یہ ادارے کئی دہائیوں سے ایک پیج پر ہیں ، ضیا الحق کی مارشل کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کس جج نے ڈکٹیٹر کا کریبان پکڑا اور آرٹیکل 52 بی جیسے قوانین کو لیگل کور دیا ہے ، جس کے تحت صدر منتخب اسمبلی کو کسی وقت گھر بھیج سکتا ہے ، اسی طرح جنرل مشرف کو بھی قانونی کور ان عدالتوں نے ہی دیا ، سلیم بخاری نےسوال اٹھایاکہ آ خر یہ کس نے آمروں کو اختیارات دیئے تھے ؟  

انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ  کہ ان کے  دور میں عدلیہ میں کیوں مداخلت نہیں ہو رہی ، بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو اپنے اندر مداخلت کو روکنا ہوگا ، ماضی کو بھول کر ھال اور مستقبل کے لئے عدلیہ کو حکومت کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا،چاہے حکومت کے ساتھ مل کر قانون سازی کرنی پڑے یا عدلیہ میں کوئی ڈگری جاری کرنے پڑے ، انصاف کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا پڑے گا، یہ رکاوٹیں چاہے ایجنسیوں کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے ہو دور کرنا پڑے گا۔