’کیسی تیری خود غرضی‘ ایک نظر میں

Dec 16, 2022 | 16:06:PM
فائل فوٹو
کیپشن: ’کیسی تیری خود غرضی‘ ایک نظر میں
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(حافظہ فرسہ رانا)کیا ڈرامے معاشرے کا عکاس ہوتے ہیں اور معاشرہ ڈراموں میں دِکھائی جانے والی چیزوں کا کوئی اثر اور سبق لیتا ہے؟ جب کسی ڈرامہ کی کہانی اور موضوع پر تنقید ہو تو اسے بنانے والے دلیل لاتے ہیں کہ یہ ایک فِکشنل کہانی ہے، عام زندگی سے ذرا ہٹ کے ہے اور کہتے ہیں کہ عام زندگی میں ایسا کہاں ہوتا ہے جو فلموں اور ڈراموں میں دِکھایا جاتا ہے۔جب انہی ڈرامہ نگاروں سے پوچھا جائے کہ کردار اور کہانی کہاں سے آئی تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاشرے سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔

ڈرامہ سیریل ’کیسی تیری خود غرضی‘ جہاں شائقین میں بے حد مقبول ہوا اوراُس کی ہر قسط کو یوٹیوب پر لاکھوں ویوزملے، وہیں اِس ڈرامے کی کہانی پر بے حد تنقید بھی ہوئی۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ اس ڈرامے میں بنیادی طور پر ایک ایسے شخص کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، جو اپنی طاقت کے بِل بوتے پر ایک لڑکی اور اُس کے خاندان کو ہراساں کرتا رہا اور بالآخر اس لڑکی کو اسی لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے جو معاشرے کے لیے اچھی مثال نہیں۔دو گھرانے ہر اعتبار سے اپنے عروجی پس منظر کے ساتھ نمودار ہوئے ہیں۔ ایک طرف مڈل کلاس ہے، ایک طرف اپر کلاس ہے، ایک طرف ہر طرح کی کمائی ہے، ایک طرف صرف محنت کی کمائی پہ شکر اور خوشی ہے۔ ایک طرف بیٹا نہیں ہے، ایک طرف بیٹی نہیں ہے، ایک طرف سلجھی ہوئی اولاد ہے، ایک طرف بگڑی ہوئی اولاد ہے۔

’ہمارا بیٹا غصے کا بہت تیز ہے بالکل تمھاری طرح۔ ہر دن یہی کوشش کرتی ہوں کہ وہ تمھاری طرح نہ بنے۔ جو سب میں نے برداشت کیا، میں نہیں چاہتی کل کو کوئی بھی وہ سب برداشت کرے۔ جانتی ہوں تم سُدھر رہے تھے، بدل رہے تھے لیکن اُس سب کا مداوا تم کبھی نہیں کر سکتے تھے جو تم نے کیا۔ ہاں میں نے تمھیں معاف ضرور کیا لیکن جو سب تم نے کیا وہ میں کبھی بھی بُھلا نہیں پاؤں گی۔‘

پاکستانی شائقین میں مقبول ہونے والا حالیہ ڈرامہ ’کیسی تیری خودغرضی‘ کا اختتام ان ڈائیلاگز کے ساتھ ایک بہتر نوٹ پر ہوا، جب مرکزی کردار مہک، شمشیر کی تصویر سے باتیں کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر دن اُن کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی اچھی پرورش کر سکیں اور اُسے اچھا انسان بنا سکیں۔

یہ ڈرامہ ایک کرپٹ بزنس ٹائیکون دلاور کے بیٹے شمشیر کے بارے میں ہے جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی مہک سے محبت کرتا ہے۔ مہک اور اُس کا خاندان رشتے سے انکار کرتے ہیں تو شمشیر اپنی اور اپنے والد کی طاقت کے بل پر اُنھیں ہراساں کرتا ہے۔
مجبوراً مہک اور اُس کا خاندان شادی کے لیے مان جاتا ہے۔ شمشیر کے والد دلاور بظاہر اِس رشتے کے لیے رضامند ہو جاتے ہیں لیکن عین شادی کے روز مہک کا قتل کروانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں معجزاتی طور پر مہک زندہ بچ جاتی ہے اور بھاگ کر دوسرے شہر چلی جاتی ہے لیکن پھر شمشیر اُسے ڈھونڈ کے زبردستی شادی کر لیتا ہے۔جس پر مہک کے والد کا ڈائیلاگ بہت جاندار ہے۔

’میرا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ میں مڈل کلاس کا بہت چھوٹا سا معمولی سا آدمی ہوں۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں بیٹیوں کا باپ ہوں۔ سب سے بڑا قصور وار میں ہوں، جس نے بیٹیاں پیدا کیں۔‘ اس ایک مکالمے میں کہانی کا سارا درد بہہ رہا ہے۔

’کیسی تیری خودغرضی‘ میں دانش تیمور (شمشیر)، دُرفشان (مہک)، نعمان اعجاز (دلاور) اور عتیقہ اوڈھو (شمشیر کی والدہ) کے کردار نبھائے ہیں۔

گذشتہ ہفتے نشر کی جانے والی آخری قسط میں جب مرکزی کردار شمشیر اپنی موت کے قریب ہوتا ہے تو مہک اُس سے اپنی محبت کا اعتراف کرتی ہے۔ ایک صحافی نے ٹوئٹر پر ڈرامے میں سسپینس اور رومانس کی تعریف کرتے ہوئِے لکھا کہ ’مہک کے پس منظر سے تعلق رکھنے والی نوجوان پاکستانی لڑکیوں نے محبت کا تجربہ نہیں کیا اور وہ نہیں جانتی ہیں کہ رشتوں کو کیسے نبھایا جائے۔ اس لیے قابل فہم ہے کہ وہ اُس واحد آدمی سے قریب ہو جاتی ہے جب وہ بہتر برتاؤ کرنے لگتا ہے۔‘
جس کے جواب میں اداکارہ نادیہ جمیل نے مردوں کے بہتر کرداروں کی ضرورت پرزور دیا اور شمشیر کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’لیکن وہ مہک کے والد اور بھائی پر تشدد کرتا ہے، اُن کو حوالات میں بند کروا دیتا ہے، اُسے اغوا کرتا ہے، اُس کی تذلیل کرتا ہے اور اُسے اُس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور کرتا ہے، پھر اُسے اپنے گھر میں قید کر لیتا ہےاور جب وہ اپنے والد سے ملنے جاتی ہے تو غصہ کرتا ہے۔ آُس کے خاندان کو ہراساں کرتا رہتا ہے۔‘

 ’کیسی تیری خود غرضی‘ کی آخری دو اقساط میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جہاں پہلے شمشیر کی موت دِکھائی گئی ۔شمشیر کی موت کے مناظر پر شائقین نے سوشل میڈیا پر کافی مایوسی کا اظہار کیا۔ پڑوسی ملک انڈیا سے بھی شائقین نے لکھا کہ پاکستانی ڈرامے اچھی خاصی کہانی کا المناک اختتام کر کے اس کی جان نکال دیتے ہیں۔فلموں اور ڈراموں کے تجزیہ نگار حسن چوہدری کہتے ہیں کہ ’ہمارے ڈرامہ لکھنے والے عورتوں سے نفرت کرتے ہیں۔‘
جو لوگ ایک محبت کی کہانی کی تلاش میں تھے وہ بھی خوش نہیں کہ مارا کیوں اور ہم جیسے لوگ جو چاہتے تھے کہ کوئی بدلہ یا سزا ہونی چاہیے تھی، وہ بھی نہ ہو سکا-‘

بچے بگڑ کیسے جاتے ہیں، کتنا اچھا سبق مل رہا ہے نا۔ ان کی غلطیوں پہ پردہ ڈالنے سے، بےجا ان کی حمایت کرنے سے۔ توجہ نہ ملنے کی وجہ سے اور اگر اس سب کے ساتھ دولت بھی ہو تو وہ جو مزاج لاتی ہے آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔لیکن کیا آپ نے محسوس کیا، جونہی محبت کی بات ہوتی ہے شمشیر میں نرمی آ جاتی ہے؟ گویا اس کے اندر انسان زندہ ہے، حالات نے کوئی بڑی ستم ظریفی کی ہے۔

اس ڈرامہ کی پسندیدگی میں ایک بڑا کردار اس کے اوریجنل ساؤنڈ ٹریک (او ایس ٹی) کا بھی ہے جسے مقبول گلوکار راحت فتح علی خان اور سحر گُل خان نے گایا۔
اِس گانے کی دھن نے شائقین کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھا اور ڈرامہ بنانے والوں نے اِس دھن اور گانے کا ہر جگہ بخوبی استعمال کیا۔