صدارتی ریفرنس۔ سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل۔، فریقین کو نوٹس۔24مارچ کو سماعت

Mar 22, 2022 | 16:23:PM
سپریم کورٹ لارجر بنچ
کیپشن: سپریم کورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز)صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لئے بھیجے گئے ریفرنس پر سماعت کے لئے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دےدیا ۔سپریم کورٹ سے جاری کاز لسٹ کے مطابق صدارتی ریفرنس کی سماعت 24 مارچ کو دوپہر ایک بجے ہوگی ۔
لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہرعالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ لارجر بنچ صدر پاکستان کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹنگ کے روز جلسہ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ بار کی درخواست کی سماعت بھی کرے گا۔سپریم کورٹ نے اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر، پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان کے وکیل کامران مرتضیٰ کو نوٹس جاری کردیئے۔اس کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ اور صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیش نظر حکومتی ارکان کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کےلئے صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں آئین کی شق 63 اے کی تشریح کے لئے ریفرنس دائر کردیا تھا، جس میں 4 سوالات اٹھائے گئے ہیں۔صدر مملکت نے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت اور دیگر متعلقہ امور پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی ہے۔صدر مملکت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ریفرنس چند ارکان پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر دائر کیا گیا ہے۔ ۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے میں درج نہیں کہ ڈیفیکٹ کرنے والا رکن کتنے عرصہ کے لئے نااہل ہو گا،کیا وفاداری تبدیل کرنے پر آرٹیکل 62 ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہئے اور ایسے ارکان پر ہمیشہ کے لئے پارلیمنٹ کے دروازے بند ہوں۔صدارتی ریفرنس میں کہا گیا کہ ووٹ خریداری کے کلچر کو روکنے کےلئے 63 اے اور 62 ایف کی تشریح کی جائے اور منحرف ارکان کا ووٹ متنازع سمجھا جائے۔صدارتی ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نااہلی کا فیصلہ ہونے تک منحرف ووٹ گنتی میں شمار نہ کیا جائے۔ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سامنے اٹھائے گئے سوالات کے مطابق آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کےلئے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی،ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے،کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟،موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لئے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ 
یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمان کی بہادر آباد آمد، ایم کیو ایم حکومت کیخلاف پھٹ پڑی