ناقد---- اب کی بار ہار گئے۔۔

تحریر: ظہیر احمد کاہلوں

Jan 21, 2023 | 10:08:AM
اس کو دیکھنا ہو تو دور سے نہیں زرا قریب آنا پڑے گا۔۔۔ شائد دور سے عکس دھندلا جائے۔ سادگی کا پیکر، شلوار قمیض میں ملبوس دفتر کے چپڑاسی کے بھی اتنا ہی قریب جتنا کسی وزیر یا بیوروکریٹ سے
کیپشن: سید محسن نقوی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اس کو دیکھنا ہو تو دور سے نہیں زرا قریب آنا پڑے گا۔۔۔ شائد دور سے عکس دھندلا جائے۔ سادگی کا پیکر، شلوار قمیض میں ملبوس دفتر کے چپڑاسی کے بھی اتنا ہی قریب جتنا کسی وزیر یا بیوروکریٹ سے۔ جس کو بھی کچھ کہنا ہو تو دروازے ہمیشہ واہ ملے، وہی کچھ کھاتا جو ملازمین کو کھلاتا، سب کی خوشی میں شریک ہوتا چاہے کتنا ہی دور کیوں نہ جانا پڑے، اپنے ورکر کے دکھ میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا بلکہ دو قدم آگے پایا جاتا۔ بچپن اتنی ہی محرومیوں میں گزارا جتنا محرومیوں میں کوئی مڈل کلاس بچہ گزارتا ہے، سرکاری سکول سے پڑھا۔ ویگنوں میں دھکے کھائے۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوا، دھن کا پکا اور لگن کا سچا۔ سکول میں گھر کے لیے کام لکھ لیتا اوراس وقت تک سوتا نہ جب تک سارا لکھا پورا نہ کر لیتا، گھر سے سکول میں کرنے والے کام لکھ کر جاتا اورواپس نہ آتا جب تک مکمل نہ کر لیتا، یہ عادت آج تک ساتھ ہے۔ اپنے اہداف لکھ لیتا ہے اور جب تک حاصل نہیں کرلیتا اس پرلائن نہیں لگاتا، محنت اور لگن کے بل پر امریکہ پڑھنے گیا پھر دنیا کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے سی این این میں نوکری پائی۔ جہاں کسی سفارش کا گزر نہیں ہوتا، قابلیت کا سکہ چلتا ہے وہ وہاں بھی کامیاب ٹھہرا۔ چیلنجز پسند کرتا، آج تک کوئی ایسا کام ادھورا نہیں چھوڑا جس کی اس نے ٹھانی ہو۔ سی این این کی تاریخ میں سب سے کم عمر ریجنل بیورو چیف بنا۔

افغان وار کی مشکل ترین رپورٹنگ میں اپنا لوہا منوایا، بی بی شہید ہو یا نواز شریف۔ چودھری ہوں یا مولانا فضل الرحمان۔ ایم کیو ایم ہو یا عمران خان، سب ہی نے عقل و دانش کے اس چراغ سے روشنی پائی۔ فہم و فراست کے جام سے کس نے فیض یاب ہونا تھا یہ تو رندوں نے خود فیصلہ کرنا تھا، اس کی خرد کے کنویں سے جو چاہتا اپنی بنجر زمین سیراب کرلیتا۔ جو محروم رہا اس نے کنویں کی جانبداری پر آواز اٹھا دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کنویں نے کبھی انکار کیا کہ وہ فلاں پارٹی کی آبیاری کرے گا فلاں کی نہیں یہ تو ان کے اپنے فاصلے تھے جو کنویں سے دور رہے۔ ورنہ چراغ تو آج بھی ویسے ہی روشن ہے جیسا روز اول تھا

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

 ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا

جب قابلیت زیادہ ہو اور دنیا چھوٹی، ستاروں پر کمند ڈالنا ہی پڑتی ہے۔ یہ شوریدہ سرامریکی ٹی وی سی این این میں بھی گھٹن محسوس کرنے لگا۔ خوابوں کا ملک چھوڑ کر اپنی مٹی میں لوٹا تو دنیا کے چلن سے باغی یہ نو عمر اپنی سوچ کو رہنما مان کر ڈگر سے ہٹ کر چل پڑا اور پاکستان کا پہلا۔ ایک شہرکا چینل بنانے میں جت گیا۔

گل سے کوئی کہے کہ شگفتن سے باز آ

اس نےتو کھلنا ہے نہ کھلے تو کیا کرے

پہلے چینل کو چلانے کے لیے درپیش مشکلات سے نپٹنے کے لیے جمع پونجی اور پھر گھریلو اشیا تک بیچ دیں مگر ہارا نہیں کیوںکہ ہار اس کی سرشت میں نہیں۔ وہ جیتتا ہے کیونکہ مشکلات اس کے آگے بس اگلی منزل کی خبر دینے آتی ہیں۔ وہ بھولتا نہیں۔ وہ ساتھ  نہیں چھوڑتا۔ اسکو بس آگے بڑھنا آتا ہے اس کو جیتنا آتا ہے اس کو بس فاتح کی طرح مسکرانا آتا ہے۔ پھرایک سے دو، دو سےتین، چار، پانچ، چھ اور پھر اسے میڈیا ٹائیکون پکارا جانے لگا۔

وہ سب سے مشاورت کر کے چلتا ہے سب کا مان بڑھاتا ہے۔ کمزورکو مضبوط بناتا ہے۔ غریب کی طاقت بنتا ہے۔ بڑے کے سامنے بڑا ہوتا ہے اور چھوٹے کے لیے فرش نشین۔

اسے جھوٹ پسند نہیں، کرپشن برداشت نہیں، اس کے ہاں بے ایمانی ناقابل معافی اور کوتاہی جرم ہیں، اس کے ہاں بس وفا کا سکہ چلتا ہے۔ بس ایمانداری جزا پاتی ہے۔ خلوص معتبر ٹھہرتا ہے۔ اس کے ادارے میں مذہب، مسلک، رنگ نسل کا وجود نہیں، اس کے ادارے میں ربیع الاول جشن کے طور پر منایا جاتا ہے تو محرم سوگ کے طورپر، ہر مکتبہ فکر کے علما اور صوفیا کرام کے عرس منائے جاتے ہیں، علما کے خطاب دکھائے جاتے ہیں، قرآن سکھایا جاتا ہے، سمجھایا جاتا ہے کرسمس کی خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں، شائد واحد ادارہ ہے جو پانچوں وقت کی ازان دکھاتے ہیں چاہے وزیراعظم یا آرمی چیف کیوں نا بول رہا ہو، واحد چینل ہے جو جمعہ مبارک کا خطبہ مکہ مکرمہ سے براہ راست دکھاتا ہے

الغرض اس پر کوئی بھی الزام نہیں لگایا جا سکتا

یہ نام ہے محسن رضا نقوی کا جس کو پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے طور پر اپوزیشن کی طرف سے نامزد کیا گیا، اس ملک میں ایک چلن ہے کہ بس تنقید کرنی ہے چاہے کوئی کتنا ہی کھرا کیوں نہ ہو، قائد اعظم کو نہ بخشا گیا، فاطمہ جناح  کو نہ چھوڑا گیا، یہاں ڈاکٹر عبدل القدیر جیسوں سے معافیاں منگوائیں گئیں، یہاں عبدالستار ایدھی سے صفائیاں مانگی گئیں۔ ہر آمر پر نشتر چلے، ہرجمہوری کو سیکورٹی رسک کہا گیا۔ یہاں نہ عادل بخشے گئے نہ قاضی، اس ملک میں شائد ایک ہی چیز پراتفاق ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو تنقید کرنی ہے۔ مگراب ناقد مشکل میں ہیں۔ اس پر کیا الزام دھریں۔ اس پرمسلکی الزام کیسے لگائیں جو ہر سال سینکڑوں ملازمین کو سرکاردوعالم ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہونے کی سعادت کا وسیلہ بنتا ہے، پہلی دفعہ ناقد مشکل میں ہیں، اب کی بار سامنے وہ سفید ملبوس محسن کھڑا ہے۔ جس کے لباس پر آج تک ہم نے تو کوئی شکن نہیں دیکھی داغ تو دور بہت دور کی بات ہے۔

میرے وطن کے ناقدو مجھے اب کی بار آپ کی ہار نظرآ رہی ہے۔۔۔ اب کی بار ہار۔۔ شائد پہلی اور آخری بار

آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا