طالبان حکومت تسلیم کرنے میں عجلت کی بجائے خطے کے ممالک اور بین الاقوامی ردِ عمل کا انتظار کرنا چا ہیے۔۔پرو گرام ڈی این اے میں تجزیہ کا رو ں کی را ئے

Aug 22, 2021 | 23:00:PM
 طالبان حکومت تسلیم کرنے میں عجلت کی بجائے خطے کے ممالک اور بین الاقوامی ردِ عمل کا انتظار کرنا چا ہیے۔۔پرو گرام ڈی این اے میں تجزیہ کا رو ں کی را ئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ( 24 نیوز ) پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے میں عجلت کی بجائے خطے کے ممالک اور بین الاقوامی ردِ عمل کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار نہ ہو۔ان خیالات کا اظہار سلیم بخاری ، افتخار احمد ، پی جے میر اور جاوید اقبال نے 24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں کیا ۔

افتخار احمد نے سوال اُٹھایا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہہ رہے ہیں کہ پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلے  تو کیا پاکستان کے مفاد میں ہے کہ مزید انتظار کرے؟ افتخار احمد نے افغان رہنما گلبدین حکمت یار کی جانب سے بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے اور پاکستان کے کردار کی تعریف کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ گلبدین حکمت یار بھارت کو کیوں دعوت دے رہے ہیں جبکہ افغانستان میں بھارت کے کردار پر مودی سرکار کو بھارت میں شدید رد عمل کا سامنا ہے اور مودی کے پاس جواب نہیں ہے؟

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں مکروہ عزائم کی ناکامی کےباعث اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ وہاں تو سوگ اور ماتم کی کیفیت ہے ۔بھارت عالمی تنہائی کا شکار ہے، اجیت دوول اور نریندر مودی نے جس طرح امریکا سمیت نیٹو کے 49 ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونکی وہ سب پر عیاں ہو چکی ہے ۔ امریکہ سمیت تمام نیٹو سربراہوں کو حیرانی ہے کہ جس افغان فورس کی تربیت پر انہوں نے بیس برس تک اربوں ڈالر خرچ کئے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئی ۔ٹرمپ اور ٹونی بلئیر جیسے لیڈر بھی انخلا کو حماقت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کو موقع ضائع کئے بغیر فوری طور پر اقوام متحدہ سمیت ہر پیلٹ فارم پر ڈپلومیسی کے ذریعے بھارتی کردار کو اجاگر کرنا چاہیے۔

پی جے میر نے خدشات کا اظہار کیا کہ افغانستان تیزی سے خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے، جیسے ہی انخلا کا عمل مکمل ہو گا اور امریکی فورس واپس جائے گی۔ حالات بگڑیں گے، امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی داعش کے حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے شہریوں کوکابل ائیر پورٹ سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خلفشار کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ ابھی بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں اس کی مثال ہیں۔ امریکا افغانستان کی پراکسی وار میں بھارت کو استعمال کرے گا ۔جاوید اقبال نے کہا کہ اب امریکا اور یورپی یونین پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ انخلا میں مدد کرے۔ 20 برس تک پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ،سابق آرمی چیف جنرل ( ر) کیا نی نے 2010 میں دورہ امریکا کے دوران واشنگٹن میں واضح کیا تھا کہ امریکا کو افغانستان میں 9 بلین ڈالر سالانہ کے اخراجات کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا لیکن ان کے موقف کو نظر انداز کیا گیا۔

پینل نے مسلم لیگی رہنما احسن اقبال کی جانب سے حکومت کو دئیے گئے چیلنج پر بھی گفتگو کی۔ جس میں انہوں نے کہا 32 سو ارب روپے کی کرپشن کے  الزامات لگانے والے 32 پیسے کے ثبوت سامنے لے آئیں۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپوزیشن کے خلاف تین برس تک انتقامی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں پر کرپشن ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی لیکن کوئی بھی کیس عدالت میں ثابت نہیں ہوا۔ جاوید اقبال نے کہا حکومت جعلی کیس بنا کر اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔

پی جے میر نے سوال کیا کہ کیا عدالتوں کے فیصلوں پر حکومت اثر انداز ہوتی ہے؟ جس پر جاوید اقبال نے جواب دیا کہ تمام تحقیقاتی ادارے حکومت کے زیر اثر ہیں اور حکومت انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے ۔عدالتیں بھی چیخ اُٹھی ہیں کہ نیب سیاسی انتقام کا ادارہ بن چکا ہے۔

پینل نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئر مین احسان مانی کی مدت ختم ہونے کے بعد کی صورتحال پر بھی غور کیا ۔ پینل کی متفقہ رائے پر کہ پی جے میر کو پی سی بی کا چیئر مین بنایا جائے۔ پی جے میر نے کہا کہ انہوں نے کرکٹ کی خدمت کی ہے اگر وزیر اعظم عمران خان انہیں موقع دیتے ہیں تو وہ ضرور اپنی بھر پور صلاحیتیں اور تجربہ کرکٹ کی بہتری کے لئے استعمال کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:لندن ۔۔ مریم نواز کے بیٹےجنید صفدر کے نکاح کی تقریب