’کے ٹو‘ پر پھنسے پاکستانی شیرپا کی مدد نہ کرنے والی خاتون کوہ پیما تنقید کی زد میں آگئی

Aug 12, 2023 | 15:52:PM
دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں سرکرنے والی نارویجن کوہ پیما پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے ’کے ٹو ’ سر کرنے کی مہم کے دوران زخمی پاکستانی شیرپا کی مدد نہیں کی اور ان کے پاس سے گزر گئیں۔
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں سرکرنے والی نارویجن کوہ پیما پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے ’کے ٹو ’ سر کرنے کی مہم کے دوران زخمی پاکستانی شیرپا کی مدد نہیں کی اور ان کے پاس سے گزر گئیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر نارویجن کوہ پیما کو تنقید کا سامنا ہے، تاہم کرسٹن ہریلا نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی ٹیم نے حسن کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ 

واضح رہے کہ شیرپا ہمالیہ کے علاقوں میں رہتے ہیں جو دنیا بھر سے آنے والے کوہ پیماؤں کی مدد کرتے ہیں جو ہر سال ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دیگر پہاڑوں کو سرکرنے کی کوشش کرتے ہیں، شیرپا کوہ پیماؤں کو چوٹی سر کرنے میں رہنمائی دیتے ہیں اور چونکہ وہ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں اسی لیے انہیں کوہ پیما بھی کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں نارویجن کوہ پیما کرسٹن ہریلا کی جانب سے عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد مذکورہ واقعے کے روز بیس کیمپ میں جشن منانے پر انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جس پر کرسٹن ہریلا نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم نے 27 سالہ پاکستانی شیرپا محمد حسن کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔

کرسٹن ہریلا کا کہنا ہے کہ ان کے کیمرا مین گیبریل ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے حسن کو آکسیجن اور گرم پانی فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرے پیچھے دیگر کئی سیاح موجود تھے میرا خیال تھا کہ دیگر سیاح حسن کی مدد کررہے ہوں گے اور حسن کو بوٹل نیک سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہوں گے۔

جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ بوٹل نیک پر اضافی لوگوں کے آنے سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اس لیے وہ آگے کی طرف بڑھنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے کیمرا مین حسن کو گرم پانی اور آکسیجن فراہم کرنے کے ایک گھنٹے بعد آگے بڑھ گئے کیونکہ ان کی بھی آکسیجن کم ہونے لگی تھی۔

’جب گیبریل میرے پاس پہنچے تو ہم سمجھ گئے کہ شاید حسن زندہ نہیں رہا جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔ ’

جب کرسٹن ہریلا اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کے بعد بیس کیمپ پہنچی تو انہیں معلوم ہوا کہ حسن کا انتقال ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم کے 4 لوگ محمد حسن کی لاش کو بحفاظت نیچے لے جانے کی حالت میں نہیں تھے۔ کوہ پیما نے کہا کہ کوہ پیمائی کے دوران آپ کسی کو اٹھا کر کیسے سفر کر سکتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے۔

کرسٹن کا کہنا ہے کہ ’حسن ہماری ٹیم کا حصہ نہیں تھے‘ اور انہوں نے حسن کو گرتے وقت بھی نہیں دیکھا تھا، کرسٹن ہریلا کے مطابق ان کے گروہ نے حسن کو زخمی حالت میں دیکھ کر ان کی مدد کرنا چاہی تھی۔

نارویجن کوہ پیما کا مزید کہنا تھا کہ حسن کو ’کوہ پیمائی کی مناسبت سے صحیح کپڑے فراہم نہیں کیے گئےتھے، انہوں نے نہ سوٹ پہنا تھا اور نہ ہی دستانے پہنے ہوئے تھے۔ سوال اس کمپنی سے پوچھا جانا چاہیے جس نے حسن کی خدمات حاصل کی تھیں کیونکہ انہیں نہ آکسیجن کی سپلائی دی گئی تھی نہ ہی سردی کی مناسبت سے صحیح کپڑے فراہم کیے گئے تھے۔

انہوں نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ پر لکھا کہ حسن کی موت کا کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے، میں نے یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ غلط معلومات اور نفرت پھیلانے کو روکا جاسکے۔

کرسٹن ہریلا نے کہا کہ انہوں نے نہیں دیکھا کہ حسن کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا، لیکن جب میں اس مقام پر پہنچی تو حسن برف کے دو پتھروں کے ساتھ رسی سے الٹے لٹکے ہوئے تھے، انہوں نے مناسب سوٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا اور پیٹ نہیں ڈھکا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں:  درسگاہیں خواتین کیلئے محفوظ نہیں، فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے بڑا دعویٰ کر دیا

واضح رہے کہ 28 جولائی کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ کے ٹو سر کرنے کے دوران پاکستانی شیرپا محمد حسن ’بوٹل نیک‘ پر برفانی تودے کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئے تھے، ساتھی کوہ پیما نے محمد حسن کو ریسکیو کیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ رواں برس بڑی تعداد میں کوہ پیما چوٹی سر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، 23 جولائی کو 52 کوہ پیماؤں نے نانگا پربت سر کی تھی، جن میں 11 پاکستانی بھی شامل تھے۔

کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین اور خطرناک چوٹی ہے جہاں ہر چار میں سے میں ایک کوہ پیما جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ پاکستان الپائن کلب کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق 1954 سے اب تک 87 سے زائد کوہ پیما کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔