لاہور ہائی کورٹ نے تقسیم ہند سے پہلے کے مقدمے کا 78 سال بعد فیصلہ دےدیا

Dec 31, 2022 | 12:51:PM
لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 1944 میں ہونے والے زمین کی فروخت کے تنازعے کا فیصلہ کر دیا۔ جسٹس مزمل اختر شبیراور جسٹس محمد اقبال نے 1952 کے سول کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر دیا
کیپشن: لاہور ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24 نیوز) لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 1944 میں ہونے والے زمین کی فروخت کے تنازعے کا فیصلہ کر دیا۔ جسٹس مزمل اختر شبیراور جسٹس محمد اقبال نے 1952 کے سول کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے نجیب کے وارثان کی سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کی۔ عدالت نے اراضی کے 78 برس پرانے تنازع کا فیصلہ سنایا، 2 رکنی بینچ نے 1952 کے سول کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اپیل دائر کرنے والے مرحوم نجیب اسلم کے وارثان پر 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان سے جانے والے غیر مسلموں کی زمین سینٹرل گورنمنٹ پاکستان کی ملکیت تھی، خالد نے بدنیتی پر 1951 میں سول کورٹ کے دعوے میں سینٹرل گورنمنٹ پاکستان کو فریق نہیں بنایا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ خالد نے فراڈ کرتے ہوئے سول کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لیا۔

 عدالتی فیصلے کے مطابق 1944 میں اسلم اور فضل نے لائل پور میں 219 کنال اراضی دھناسنگھ کو فروخت کی تھی، دھنا سنگھ 1947 میں آزادی کے بعد بھارت چلا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ خالد محمود نے 1951 میں زمین فروخت پر اپنے والد فضل اور دھناسنگھ کےخلاف دعویٰ کر دیا، سول عدالت نے دھنا سنگھ کے پیش نہ ہونے پر 1952 میں زمین کا فیصلہ خالد کے حق میں دیا۔

زمین بیچنے والے دوسرے شخص اسلم کے بیٹے نجیب نے 1962 میں خالد کے نام زمین منسوخی کی درخواست دی، نجیب کی درخواست 1963 میں منظور ہونے پر خالد نے سیٹلمنٹ کمشنر کے روبرو اپیل کی، 1964 میں سٹیلمنٹ کمشنر نے نجیب کی درخواست خارج کر دی۔

عدالت کا مزید کہنا ہے کہ نجیب نے اخراج کے خلاف اپیل کی جو 1966 میں منظور ہو گئی، نجیب کے بچوں نے 2018 میں سول عدالت کے 1952 کے فیصلے پر عمل کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دی، ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے یہ درخواست خارج کر دی۔