گورنر کا حکم معطل،لاہور ہائیکورٹ نےپرویز الہیٰ اور  پنجاب کابینہ کو بحال کردیا

Dec 23, 2022 | 10:20:AM
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا
کیپشن: لاہور ہارئیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)ہائیکورٹ میں چودھری پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی ،جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی  لارجر بینچ چوہدری پرویزالہی کی درخواست پر سماعت  کی،مونس الہی اور حسین الہی بھی ہائیکورٹ پہنچے،وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہی نے اسمبلی نہ توڑنے کی اندر ٹیکنگ دیدی ، جسٹس عابد عزیز شیخ  نے استفسار کیا کہ اگر ہم حکومت بحال کرددیں تو کیا اعتماد کا ووٹ لیں گے۔اگر آپ کے پاس اسمبلی اکثریت  ہے ، کیا اعتماد کا ووٹ لیں گے یا نہیں۔

گورنر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر اکثریت ہے تو اعتماد کا ووٹ لیں  چند روز میں،عدالت اعتماد کا ووٹ لینے کا تعین کر دے ڈی نوٹیفائڈکا حکم نامہ واپس لے سکتے ہیں ،پرویز الہیٰ کو 4 دن ووٹ لینے کا کہا جائے، ہم وزیر کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا آرڈر واپس لینے کو تیار ہیں، جسٹس عابد عزیز شیخ کا گورنر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا  تھاکہ عدالت کیا پیر سے سات روز کا وقت دے دے ،  اپ یہ انڈرٹیکنگ دے دیں کہ وہ آرڈر واپس لے لیں گے۔

 پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی، پرویز الہٰی کی عدالت کو یقین دہانی،پرویزالہٰی کی جانب سے بیان حلفی جمع کرادیاگیا

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ  ہم نے بیلنس کرکے کا فیصلہ کرنا ہے اس لئے انڈر ٹیکنگ لی ہے ، چاہتے ہیں دونوں طرف سے انڈر ٹیکنگ دے دیں اور عدالت نے بیلنس میں فیصلہ کرنا ہے۔

بعد ازاں  لاہور ہائیکورٹ  نے گورنر کا حکم معطل کردیا، وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ کو کابینہ سمیت بحال کردیا، اگلی تاریخ 11 جنوری کو سماعت ہوگی، اگلی سماعت تک اسمبلی نہ توڑنے کی اندر ٹیکنگ دیدی گئی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردئیے

LHC Order to reinstate Punjb CM Pervaiz Elahi by 24 News on Scribd

دوسری جانب پہلی سماعت میں لاہور ہائیکورٹ میں چوہدری پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف کیس میں جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے مطابق گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے، اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عملدرآمد تو ہونا چاہیے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ چوہدری پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔ پرویز الہی کی جانب سے بریسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز الہی الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعلی بنے، انہیں 371 میں سے 186 ووٹ ملے، ان کے دس ووٹ نکال دییے گئے لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ پرویز الہی کے حق میں دیا۔

 وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلی کے انتخاب میں چوہدری پرویز الہی 186 ووٹ لے کر وزیر اعلی منتخب ہوئے، اس وقت کے ڈیپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے 10 ووٹ نکال دئیے، ڈپٹی سپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ کاؤنٹ نہیں کیے، ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ق لیگ کے ممبران کے ووٹ تصور نہیں کیے، معاملہ سپریم کورٹ گیا جہاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کلعدم قرار دیا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت دو شقوں کے ذریعے وزیر اعلی کو ہٹایا جا سکتا ہے، ہٹانے کا ایک طریقہ تحریک عدم اعتماد کا ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گورنر وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں، آئیں کے آرٹیکل 130 کے سب سیکشن 7 کے اعتماد کو ووٹ لینے کہ سکتا ہے، اگر گورنر تصور کرے یہ وزیر اعلی اکثریت کھو چکے ہیں تو اعتماد کا ووٹ کےلیے کہہ سکتے ہیں، اعتماد کے ووٹ کےلیے گورنر اجلاس سمن کرتا ہے۔

پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کےلیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہیے، وزیراعلی کو اسمبلی منتخب کر تی ہے اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے، اگر اکثریت  تھوڑی ہو تو ایسا ہو سکتا ہے کہ ق لیگ کے دس ارکان کہیں کہ وہ اب وزیر اعلی کے ساتھ نہیں ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کہے کہ وہ اب وزیر اعلی کے ساتھ نہیں ہیں تو یہ کہا جا سکتا کہ اکثریت نہیں رہی، ایسے نہیں ہو سکتا کہ گورنر ایک دن اچانک کہیں کہ دو گھنٹے میں اعتماد کا ووٹ لو۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کیس سے متعلقہ منظور وٹو کیس کا فیصلہ اہم ہے، اجلاس کال کرنے کا اختیار صرف اسپیکر کے پاس ہے، اسپیکر کو تمام ممبران کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے، اسپیکر نوٹس ہونے کے بعد فوری اجلاس کال کر بھی سکتا ہے، اسپیکر ڈیٹ فکس کر کے اجلاس کا نوٹس اس تاریخ کو بھی کر سکتا ہے، رولز کے تحت مناسب وقت دیا جانا ضروری ہے، تمام ارکان کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے، کئی بار ارکان بیرون ملک بیٹھے ہوتے ہیں تو سپیکر دس بار دن کا وقت بھی دے سکتا ہے۔

 ضرور پڑھیں :وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی حکومت ختم ،پنجاب میں بڑی تبدیلیاں متوقع

جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سپیکر فورا ووٹنگ کرا دے، بظاہر اسطرح تو دس دن وقت دیا جانا بھی ضروری نہیں ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جو سکیشن پڑھا ہے دوبارہ پڑھ دیں، سیکشن سات بھی ہڑھیں۔

بریسٹر علی ظفر نے مختلف قانون کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کے پاس ایک پاور ہے آرٹیکل 137 کے تحت کہ وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہیں، قانون میں کہیں نہیں ہے کہ گورنر وزیراعلی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کر دے، اسپیکر صرف سیشن کال کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : مریم اورنگزیب اور فواد چوہدری آمنے سامنے

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ یہاں بار بار سیکرٹری کا لفظ آ رہا ہے، سہپکر کہاں سے آگیا۔ جس پر وکیل بریسٹر علی ظفر نے کہا کہ ساری پاورز سپیکرز کی ہی ہیں وہی اجلاس طلب کرسکتا ہے، یہ سارا پراسیس گورنر اور سپیکر کے مابین ہوتا ہے، تاریخ مقرر کرنا سپیکر کا اختیار ہے، گورنر نے جیسے کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، وزیر اعلی اسمبلی کا سیشن بلانے کا اختیار ہی نہیں رکھتا۔

عدالت نے استفسار کیا سیکرٹری  اسمبلی کے اختیارات کدھر ہیں۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلی خود سے اسمبلی اجلاس نہیں بلاسکتا، سپیکر کا اختیار ہے اجلاس بلانا اور اعتماد کے ووٹ یا عدم اعتماد کا پراسس مکمل کرنا، گورنر وزیر اعلی سے اعتماد ووٹ لینے کا سمن جاری کرتا ہے، وزیراعلی نے ہوا میں ووٹ نہیں لینا، اسپیکر اعتماد کے لیے اجلاس بلائے گا تو وہ آئیں۔