بسنت پنچمی سے خونی کھیل تک کا سفر

تحریر : نورالعین

Mar 29, 2024 | 21:44:PM
بسنت پنچمی سے خونی کھیل تک کا سفر
کیپشن: بسنت پنچمی سے خونی کھیل تک کا سفر
سورس: 24 نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 تھوڑی دیر کے لئے تصور کیجئے کہ کسی ماں باپ نے  چوبیس سال کی لگاتار محنت توجہ اور محبت سے اپنےبیٹے کو شیر خوارگی سے لے کر لڑکپن اور پھر جوان ہونے تک پالا ہو ۔ اُس کی بہترین تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا چھوڑی ہو ۔ اُس ماں کے بار ے میں سوچئیے جس  نے نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھ کے  اُسے پیدا کیا اور پھر  چوبیس سال تک  اُس کی دیکھ بھال کی ۔ 

وہ ماں جو بیٹے کے بغیر رات  کا کھانا نہیں کھاتی اور  بیٹے کو کبھی گھر آنے میں دیر ہو جائے  تو  ہر کھٹکے پر ماں کی نظر دروازے کی طرف اٹھ جاتی ہو کہ اُس کا لاڈلا گھرپہنچ گیا۔ لیکن وہی بیٹا جب ایک دن  گھر سے  افطاری کا سامان لینے نکلے کہ واپس آ کر اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ افطار ی کر ے گا۔ کسی جاہل اور ظالم انسان  کے بیہودہ شوق کا شکار ہو کر راستے میں ہی اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔ دیکھنے والے بے بس دیکھتے رہ جائیں۔ بجائے بیٹے کے بیٹے کی گردن کٹی لاش گھر پہنچے تو اُس ماں کا کیا حال ہو گا؟

22 مارچ2024  کو فیصل آباد میں   ایک  آصف نامی نوجوان  موٹر سائیکل پر گھر سے افطاری کا سامان لینے نکلااور جاتے ہوئے کسی جاہل بد بخت کی اڑائی ہوئی پتنگ کی  کیمیکل ڈور کا شکار ہو گیا۔ منٹوں  میں اس کیمیکل ڈور نے اُس کی  زندگی کی ڈور کاٹ دی۔ ایک اور بیٹا ، ایک تعلیم یافتہ شہری اور ایک خوبصورت انسان ، پتنگ بازی کے اس ظالمانہ شوق کا شکار ہو کر ساری عمر کے لئے ماں باپ کو دُکھی کر گیا۔ اس نوجوان کا نام آصف اشفاق تھا۔ اس کا والد فوت ہو چُکا ہے اور عید کے بعد ہی  آصف کی شادی  طے تھی۔ لیکن کچھ انسان واقعی انتہائی بد بخت اور ظا لم صفت ہوتے ہیں۔  جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ دھاتی تار یا کیمیکل ڈور سے پتنگ اڑانا  راہ گیروں ،خصوصا موٹر سائیکل سواروں کے لئے انتہائی خطر ناک  ہے ، بے دھڑک اس خطر ناک ڈور کا استعمال کر کے اپنا پتنگ بازی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ ان سے بھی ظالم وہ لوگ ہیں جو اس خطر ناک ڈور کو تیار کرتے ہیں اور چند پیسوں کی خاطر کسی کی جان جانے کی اُنہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔ اس جوان کی موت کا ذمہ دار وہ پولیس تھانہ بھی ہے  جس کی حدود میں ایسی ڈور تیار کی جاتی ہے اور جس کی حدود میں ایسی ڈور سے پتنگ اڑائی جاتی ہے لیکن وہ بھی چند روپوں کی خاطر ایسا بھیانک جرم کرنے والوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ آپ صرف تصور کریں کہ ایک معصوم انسان پر ایک  بد بخت کے شوق نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔

 بسنت کا تہوار  صدیوں سے بر صغیر کا روایتی تہوار رہا ہے۔ سردیوں کے خاتمے پر موسمِ بہار کی آمد کا جشن منانا دنیا کے  بیشتر معاشروں میں ایک معمول رہا ہے۔ قدیم ہند کے زرعی معاشرے میں سال بھر کے عرصے کو 6 موسموں میں تقسیم کیا گیا تھا اور لوگوں کا سب سے دلپسند موسم تھا ’وسنت رِتو‘ یعنی وہ موسم جب نہ تو اتنی سردی ہو کہ پھول پتوں پر کُہرا جم جائے اور نہ اتنی گرمی کہ چیل انڈا چھوڑ دے۔ اسی موسم کو بعد میں بسنت کہا جانے لگا۔

بہار کے  خوشگوار موسم کا  استقبال  کرنے کے لئے ماگھ کے  مہینے کی پانچ تاریخ کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا تھاجو کہ ’بسنت پنچمی‘ کہلاتا۔ پت جھڑ کے بعد ، جب درختوں پر  ہریالی آتی ہے ، پھولوں کی کلیاں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں ، تب بسنت کاموسم آتا ہے جودنیا بھر میں کسی نہ کسی روپ میں منایاجاتاہے۔ ہندوستان میں جب اسلام کی صوفی روایت نے زور پکڑا تو ہندو اور مسلمان مل کر یہ جشن منانے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ  حضرت نظام الدین اولیاء  اپنے بھتیجے کی وفات پر  سخت غم زدہ  تھے اور عرصہءدراز سے گم صم بیٹھے تھے۔ موسمِ بہار نے انگڑائی لی تو حضرت امیر خسرو سے اپنے مرشد کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ چنانچہ انہوں نے پیلے رنگ کا لباس پہنا‘ ہاتھ میں سرسوں کا پودا لیا جسکے پیلے پیلے پھول پورے جوبن پر تھے۔ جب وہ اس حُلیے میں حضرت نظام الدین اولیاء کے سامنے نمودار ہوئے تو حضرت مسکرا دئیے اور پھر کھلکھلا کے ہنسنے لگے اور اس طرح بسنت کے تہوار کو ،باقاعدہ منانے کی صوفی روایت کا آغاز ہوا۔ جوکہ کسی نہ کسی شکل میں گزشتہ آٹھ صدیوں سے جاری ہے اور اس تہوار کا ایک اور رنگ ، اخوت ،محبت اور ہم آہنگی ہے۔

بسنت کا تہوار یوں تو صدیوں سے منایا جا رہا ہے ،لیکن  پنجاب میں مقبولیت اسے انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں ملی۔ جب پنجاب میں مہاراجہ کی حکومت کا سکہ چلتا تھا۔ بسنت اس دور میں پوری شان و شوکت سے منائی گئی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کی مہارانی مائی موراں پیلے رنگ کے پیرہن زیب تن کرتے اور لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے۔ تب پنجابی فوج کے جوان پیلے رنگ کے لباس پر زِرہ بکتر سجائے اپنی شان دکھاتے تھے۔ امرتسر، قصور اور لاہور میں بسنت زور و شور سے منائی جاتی تھی، خوب پتنگ بازی ہوتی، مہاراجہ اور مہارانی خود پتنگ بازی کرتے اور عوامی میلوں کو اپنی شمولیت سے خوشی بخشتے تھے۔ یعنی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پتنگ بازی کو بھی بسنت کے تہوار میں شامل کر دیا گیا  اور صوبہ پنجاب میں اسے خاصی پذیرائی ملی۔  لیکن تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں بسنت کا تہوار محض پتنگ بازی سے مخصوص ہو کر رہ گیا ۔

پنجاب میں آج سے بیس سال قبل تک بسنت کا تہوار خوب جوش سے منایا جاتا رہا ۔ پتنگ بازی بھی ہوتی تھی ۔ چھتوں سے بو کاٹا کی آوازین بلند ہوتی ۔  لوگ بسنت کے تہوار کے لئے مہینہ پہلے ہی پتنگیں خریدنا اور ڈور بنوانا شروع کر دیتے تھے۔ بسنت والے دن آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھر جایا کرتا ۔  لیکن کبھی نہیں سُنا کہ اُس ڈور سے کسی کا گلا کٹ گیا ہو یا کسی کی موت ہوئی ہو ۔

   لیکن پھر کچھ انسانوں پر لالچ غالب آیا ۔ اپنی پتنگ کٹنے سے بچانے اور دوسروں کی پتنگ کاٹنے کے لئے اُنہوں نے  ایسی ڈور کا استعمال شروع کر دیا جس پر کانچ کو پیس کر اُس کا پاؤڈر اس درجے پر لگایا جاتا ہے کہ ڈور تیار ہو کر  چھری سے بھی  تیز دھار ہو جاتی ہے ۔  اس پر کمال یہ کہ یہ ڈور اتنی مضبوط بنائی جاتی ہے کہ آسانی سے ٹوٹتی بھی نہیں۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ کئی پتنگ بازوں نے اپنی پتنگ کو مزید محفوظ بنانے کے لئے  ڈور کے آگے دھاتی تار لگانا شروع کر دی۔ جس سے اُن کی پتنگ تو محفوظ ہو گئی لیکن راہ چلتے انسانوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو گئیں ۔

 ان دھاتی تاروں کی وجہ سے بھی کئی اموات ہوئی ہیں کہ جب یہ پتنگ کسی طرح کٹ کر  بجلی کی تاروں میں اٹک جاتی تو اِسے لوٹنے والے فوری بجلی کے جھٹکے سے موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ۔ دوسرے یہ دھاتی تار بار بار بجلی کی ٹرپنگ کا سبب بھی بنتی ہے ۔ اسی لئے سن 2001  سے پاکستان میں  دھاتی یا کیمیکل ڈور استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس کی سزا 6 ماہ قید ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہر سال بہار کے موسم میں دھاتی اور کیمیکل  ڈور تیار ہو تی ہے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں انسانی جانیں لیتی ہے ۔

 پولیس اؤل تو نذرانہ لے کر ایسی خطرناک ڈور بنانے والوں سے چشم پوشی کرتی ہے یا اگر وہ کسی کو گرفتار بھی کر لیں تو مُک مُکا کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پتنگ بازی سے متعلق قانون کا نفاذ لازمی بنایا جائے ۔ جس تھانے کی حدود میں کیمیکل ڈور تیار ہو یا وہاں سے پتنگ اڑائی جائے۔ اُس تھانے کے انچاج کو عملے سمیت معطل کر کے کاروائی کی جائے اور پتنگ اڑانے یا کیمیکل ڈور بنانے والوں کو کڑی سزا دی جائے ۔ شہریوں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے، جہاں پتنگ بازی ہورہی ہو یا کیمیکل ڈوربنائی جا رہی ہو ۔ اُس کے بارے میں پولیس کو لازم اطلاع کریں اور چاہے تو اُس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیں ۔

 مبینہ طور پر کچھ   صحافیوں  کا یہ بھی کہنا ہے کہ  پورے پاکستان    میں اس خطرناک کیمیکل ڈور کی زیادہ تر  سپلائی فیصل آباد کے ایک محلے مدن پورہ سے ہوتی  ہے۔  یہاں 100 سے 150 گھر کیمیکل ڈور بناتے ہیں۔ اگر ان گھروں سے کیمیکل ڈور بنانے والی مشینری اٹھا کر قبضے میں لے لی جائے اور ذمہ داروں کو گرفتار کر کے  اُنہیں کڑی سزا دی جائے تو    کیمیکل ڈور کی لعنت کا یقیناَ  پورے پاکستان سے خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بے شمار انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں ۔

دوسرے موٹر سائیکل سواروں سے بھی گزارش ہے کہ یہ پاکستان ہے یہاں قانون  کی دھجیاں اڑانا عام معمول ہے۔ تو اس لئے وہ اپنی موٹر سائیکل کے آگے ایک  سیفٹی  راڈ ضرور لگائیں۔ گلے میں موٹا کپڑا لپیٹیں،  دستانے پہن کر موٹر سائیکل چلائیں اور بچوں کو موٹر سائیکل پر آگے بٹھانے سے پرہیز کریں   تاکہ آپ اور آپ کے پیارے اس خطرناک ڈور کے قاتل وار سے محفوظ رہ سکیں۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ایڈیٹر