دنیا کے12جان لیوا وائرس کہاں پیدا ہوئے۔۔ویکیسن تیار ہوئی یا نہیں۔۔معلوماتی رپورٹ 

Dec 20, 2021 | 19:38:PM
دنیا، جان لیوا، وائرس
کیپشن: دنیا کے جان لیوا وائرس(فائل فوٹو)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا میں ویسے تو سائنسدانوں نے لاکھوں کی تعداد میں وائرس کی اقسام کو شناخت کیا ہے لیکن ان میں سے 12 وائرسز کی سائنسدان نے جان لیوا وائرس کے طور پر تصدیق کی ہے۔

بھارت کے ایک اردو اخبار کی ان جان لیوا وائرسز کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق خطرناک ماربرگ وائرس  کی دریافت سب سے پہلے 1967 میں ہوئی تھی جب یوگنڈا سے لائے گئے متاثرہ بندروں پر جرمنی کے کچھ سائنسدان تجربہ کررہے تھے۔ بندروں سے یہ وائرس سائنسدانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اسکی علامات میں گردن توڑ بخار،  جسم کے اندرخون نکلنا، جو کہ بالآخر شاک، عضو کی ناکامی اور موت پر منتج ہوتا ہے۔ ایبولا وائرس وائرس کی وبا سب سے پہلے 1976 میں سوڈان اور کانگو میں پھیلی، جس سے موت کی شرح 50 سے 71 فیصد تک ہے۔ یہ وائرس متاثرہ فرد کے خون یا دیگر جسمانی مائع کی نمائش سے پھیلتا ہے۔ ریبیز کےوائرس کو 1920 میں ریبیز کی ویکسین نے ترقی یافتہ ممالک سے اس وائرس کو تقریباً ختم کردیا ہے لیکن بھارت اور افریقہ کے کچھ حصوں میں یہ اب بھی موجود ہے۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے کاٹنے یا اس سے چوٹ پہنچنے سے لگتا ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے مطابق اگر یہ وائرس ایک بار لگ جائے تو موت تقریباً یقینی ہے۔ایچ آئی وی (ایڈز) کا وائرس  آج کی دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک وائرس شاید یہی ہے۔ 1980 میں دریافت ہونے کے بعد سے لے کر اب تک 32 کروڑ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس وائرس کی نہ ہی اب تک کوئی ویکسین ایجاد ہو پائی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی کامل علاج ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مشیر خزانہ شوکت ترین سینیٹر منتخب

رپورٹ کے مطابق  1980 میں ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو سمال پاکس کے وائرس سے پاک قرار دیا لیکن اس سے پہلے ہر 3 متاثرہ افراد میں سے ایک کی موت لازمی تھی اور جو اس سے صحت یاب ہوجاتے تھے ان میں دائمی طبی خرابیاں پیدا ہوجاتی تھیں جن میں بینائی کا چلے جانا بھی تھا۔ ہنٹاوائرس چوہوں کے فضلات سے پھیلتا ہے۔ متاثرہ شخص کو کچھ ہی دنوں میں سانس لینے کے عمل میں شدید دشواری پیدا ہوجاتی ہے جو بالآخر موت پر منتج ہوتی ہے۔ امریکہ میں اب تک 600 افراد اس وائرس کی وجہ سے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔  انفلوئینزا وائرس نے انسانی تاریخ کی بدترین وبا جسے سپینش فلو بھی کہا جاتا ہے کو جنم دیا۔ یہ وبا 1918 میں پھیلی جس نے دنیا کی 40 فیصد آبادی کو ہڑپ کرلیا۔  ڈینگی وائرس فلپائن اور تھائی لینڈ میں منظر عام پر آیا تھا۔ کلینیکل مائکروبایولوجی ریویوز کے مطابق دنیا کی 40 فیصد آبادی اس وقت ایسے مقامات میں رہ رہی ہے جو ڈینگی سے شدید متاثر ہے۔ 100 سے 400 ملین افراد سالانہ ڈینگی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ روٹا وائرس  کی بچوں کے تحفظ کیلئے  2 ویکسین دستیاب ہیں۔ نومولود بچوں میں یہ اسہال کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب شاذونادر ہی کسی بچے کی موت اس وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں یہ اب بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ایسے ممالک میں بچوں کی اس بیماری کی دوران جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے طبی ذرائع بہت محدود ہوتے ہیں۔ سارس-کوو کا وائرس جو عمل تنفس respiration کو شدید متاثر کرسکتا ہے اور نمونیا کا باعث بن سکتا ہے، یہ وائرس2003 میں سامنے آیا۔ یہ وبا چین میں پھیلنا شروع ہوئی اور 26 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 8000افراد متاثر ہوئے جبکہ کچھ ہی مہینوں کے اندر 770 افراد سے زائد ہلاک ہوگئے۔ کورونا وائرس سارس کوو 2 کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے،یہ وائرس چین میں ہی وبا کا مرکز بنا جس نے حکام کو پورا صوبہ اور آس پاس کے شہر وغیرہ کو بند کردینے پر مجبور کردیا تاہم چند ہی عرصے میں یہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں پھیل گیا۔ اس کی علامات بھی سارس کوو سے ملتی جلتی ہیں تاہم اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔  مرس کووو وائرس سے وبا سعودی عرب میں 2012 میں پھیلی جس کے بعد 2015 میں پھر جنوبی کوریا میں اس نے اپنے پنجے گاڑھے۔ اس وائرس کا تعلق بھی کوروناوائرس اور سارس کوو کی شاخ سے ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سب سے پہلے اونٹ اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جس کے بعد یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس کی علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرکٹریاسر شاہ پرلڑکی سے زیادتی میں معاونت ،ہراساں کرنے کا الزام ،مقدمہ درج،سنگین انکشافات