بلاآخرعمران خان مان گئےلیکن یہ رابن رافیل ہےکون؟

Sep 13, 2022 | 16:17:PM
بلآخر ,عمران خان, مان گئے, لیکن , رابن رافیل
کیپشن: عمران خان اور رابن رافیل (فائل فوٹو)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں تو سامنے آئی ہیں مگر یہ  رابن رافیل  ہےکون؟ اس حوالے سے بڑی خبر سامنے آ گئی۔

سابق وزیر اعظم و پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کیخلاف امریکی سازش کے بیانیے کی تشہیر کے بعد اُن کی ایک ایسی سابق امریکی سفارتکار سے ملاقات کے مقصد پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کو ایک وقت میں جاسوسی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے،عمران خان اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد سے اس بات کو دہراتے رہے ہیں کہ اپوزیشن رہنماؤں نے امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں کی جبکہ اصل بات کچھ اور ہے۔


گزشتہ روز سوشل میڈیا پر عمران خان اور رابن رافیل کی ملاقات کی خبروں کے بعد عمران خان نے خود اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کے پروگرام میں  کہاتھا کہ رابن رافیل کو وہ پرانا جانتا ہیں اور وہ یہ کہ رابن رافیل اِس وقت امریکی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ تھنک ٹینکس کے ساتھ ہیں،یہ ملاقات اس تناظر میں اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خاتمے پر ایک بیرونی سازش کو ذمہ دار قرار دیا گیا جس میں ان کے بقول اپوزیشن جماعتیں شریک کار بنیں جس کے بعد سے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے چند رہنما امریکہ پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب  امریکا سے تعلقات کی بحالی کیلئے کوشاں سابق وزیراعظم عمران خان کی سابق خاتون امریکی سفارتکار رابن رافیل سے بنی گالہ میں ملاقات ہوئی،ملاقات میں سینیٹر شہزاد وسیم بھی موجود تھے،رابن رافیل امریکا کی سابق سفارتکار، سی آئی اے تجزیہ کار اور لابسٹ ہیں،وہ امریکی ایوان اورپینٹاگون میں کافی اثر ورسوخ رکھتی ہیں۔

 اس سے پہلے پی ٹی آئی رہنما فوادچودھری بھی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کر چکے ہیں،اس حوالے سے  تحریک انصاف کا موقف ایک نہیں ہے، عدالت میں پیشی پر صحافیوں نے عمران خان سے سابق خاتون امریکی سفارتکار سے ملاقات کے حوالے سے متعدد بار سوال کیا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی نے اس کی تصدیق یا تردید سے انکار کیا۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ رابن رافیل کی عمران خان سے ملاقات کا علم نہیں،ان کاکہناتھا کہ رابن رافیل یہاں آئیں گی تو ملاقات میں کوئی مسئلہ نہیں ،فواد چودھری نے کہاکہ کہ رابن رافیل ریٹائرڈ ہو چکیں، ان کا امریکی حکومت میں کوئی کردار نہیں، وسیم شہزاد والی ملاقات تو دو تین سال پرانی ہے، پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ امریکا کے ساتھ ہماری کوئی جنگ نہیں، امریکا کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتے ہیں ۔

اس سے پہلے یہ بھی خبر آچکی تھی کہ نئے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے خیبرپختونخوا کے دورے پر وزیراعلیٰ محمود خان نے عمران خان سے ٹائم سیشن کروایا تھا،یہ بھی خبر آئی تھی کہ امریکا میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری اوورسیز عبداللہ ریارڈنے ڈونلڈ لو کیساتھ ملاقات کی تھی جن پر عمران خان نے حکومت گرانے کا الزام لگایا تھا۔

ایک طرف عمران خان اور ان کی جماعت امریکا پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکا شامل ہے کیونکہ عمران خان نے بطور وزیراعظم روس کا سرکاری دورہ کیا تھا،تحریک انصاف کے اس الزام کی امریکا کی جانب سے ہمیشہ تردید کی گئی ہے۔

دوسری جانب عمران خان اور ان کے پارٹی رہنما امریکی عہدیداروں سے خفیہ ملاقات کرتے ہیں ،جلسے جلوسوں میں عمران خان امریکا پر الزام تراشی اور بند کمروں میں فیصلوں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

سب تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی سیاست کا پرانا وطیرہ ہے کہ امریکا مخالف بیانیہ کو عوام میں لایا جائے اور اندر کھاتے امریکا سے تعلقات کو مضبوط کیا جائے کیونکہ امریکا سے تعلقات بگاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد چودھری نے بھی 8ستمبر کو امریکی سفارتخانہ میں امریکی سفیرڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق رابن رافیل نے واشنگٹن یونیورسٹی سے تاریخ اور معاشیات میں بی اے کیا جس کے بعد انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ اور میری لینڈ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کیا۔


غیر ملکی اخبار کے آرٹیکل کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ان کی دوستی فرینک ایلر سے ہوئی جو بعد میں امریکہ کے صدر بننے والے بل کلنٹن کے بھی دوست تھے۔
انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ٹیچر ایران سے کیا جہاں وہ تہران کے ایک کالج میں تاریخ پڑھاتی تھیں،یہاں ان کی ملاقات آرنلڈ لیوس رافیل سے ہوئی جو امریکی سفارت خانے میں پولیٹیکل افسر تھے۔
امریکی حکومت کے لئے انھوں نے 1973 میں کام کرنا شروع کیا جب وہ سی آئی سے میں بطور اکنامک تجزیہ کار شامل ہوئیں،2 سال بعد 1975 میں، وہ پہلی بار پاکستان آئیں جہاں اسلام آباد میں امریکی ایجنسی یو ایس ایڈ کے ساتھ بطور معاشی تجزیہ کار وابستہ ہوئیں۔
اس دوران آرنلڈ لیوس رافیل بھی اسلام آباد تعینات ہوئے اور دونوں نے شادی کر لی۔
آرنلڈ رافیل 1987 میں اسلام آباد میں امریکی سفیر بھی تعینات ہوئے۔ آرنلڈ وہی امریکی سفیر ہیں جو 1988 میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے ساتھ اس جہاز پر سوار تھے جو تباہ ہو گیا تھا۔ تاہم اس وقت تک ان کی رابن سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
اسلام آباد میں پوسٹنگ کے بعد رابن امریکی محکمہ خارجہ کا حصہ بن گئیں۔ سنہ 1978 میں امریکہ واپسی کے بعد انھوں نے اسرائیل ڈیسک کے علاوہ، بطور سٹاف ایڈ برائے اسسٹنٹ سیکریٹری جنوبی ایشیا اور پھر بطور سپیشل اسسٹنٹ برائے انڈر سیکریٹری سیاسی امور کام کیا۔
سنہ 1984 میں رابن رافیل کو لندن کے امریکی سفارت خانے بھیج دیا گیا جہاں سے وہ مشرق وسطیٰ، جنوبی اور مشرقی ایشیا سمیت افریقہ پر کام کرتی تھیں۔
سنہ 1991 سے 1993 تک انھوں نے انڈیا کے دارالحکومت دلی میں امریکی سفارت خانے میں کام کیا جس کے بعد ان کو کلنٹن انتظامیہ میں اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیائی اُمور تعینات کر دیا گیا جس پر وہ چار سال یعنی 1997 تک کام کرتی رہیں۔
سنہ 1997 میں رابن رافیل تیونس میں امریکہ کی سفیر تعینات ہوئیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق رابن رافیل کو فرانسیسی اور اُردو زبان پر عبور حاصل ہے۔
  رابن رافیل 30 سالہ سفارتکاری سے 2005 میں ریٹائر ہو گئی تھیں لیکن اوباما انتظامیہ میں پاکستان اور افغانستان کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہولبروک کے ساتھ ان کو کام کرنے کی دعوت دی گئی،سنہ 2009 میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے انھیں کنٹریکٹر کی حیثیت سے نوکری دی تھی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق رابن رافیل کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ملازمت دینے پر کئی لوگوں نے تشویش ظاہر کی تھی،اس کی وجہ یہ تھی کہ دفترِ خارجہ میں 30 سال نوکری کرنے کے فوری بعد انھوں نے کیسیڈی اینڈ ایسوسی ایٹس نامی فرم میں شمولیت اختیار کی جو پاکستان کیلئے لابنگ کرتی ہے۔