انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، اہمیت سے انکار نہیں کرتے: چیف جسٹس

Jan 13, 2024 | 13:29:PM
انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، اہمیت سے انکار نہیں کرتے: چیف جسٹس
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)پاکستان تحریک انصاف کو ’’ بلّے ‘‘کا نشان ملے گا یا نہیں؟ سپریم کورٹ میں سماعت جاری،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔

سماعت کے آغاز پر وکیل تحریک انصاف حامدخان نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بیرسٹرعلی ظفروکیل تھے، بیرسٹرعلی ظفرہی دلائل دیں گے، میں نے دیکھا ہے،فیصلہ بہت اچھا لکھا گیا ہے،علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وقت کی قلت ہےاس لیےجلددلائل مکمل کرنےکی کوشش کروں گا، آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ آرڈر بھی لکھنا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم صرف جنرل نوعیت کی چیزیں جانناچاہتےہیں، پاکستان میں الیکشن کی شفافیت کم ہی تسلیم کی جاتی ہے، الیکشن کی چھوٹی چھوٹی باریکیوں میں نہیں جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تسلیم کیاگیاکہ اکبرایس بابرپارٹی کےبانی ممبرہیں، محض آپ کسی کوپسندنہ کریں توممبرشپ ختم نہیں ہوجاتی، کیا ممبران کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا شفاف موقع ملا یا نہیں؟ اس بنیادی سوال کاجواب نہ ہونامشکل میں ڈال سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا پارٹی کے اندر جمہوریت ہے یا نہیں؟

دوران سماعت وکیل تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی نشان پارٹی کا بنیادی حق ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے،علی ظفر کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی، چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے۔ آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مثال سب سے پہلے ہے، ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا۔

علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کاذکرنہیں کیا، الیکشن کمیشن کےحکم نامہ میں تسلیم شدہ ہےکہ انٹراپارٹی انتخابات ہوئےتھے، جواب ملنےکےبعدالیکشن کمیشن نےالیکشن کالعدم قراردے کرانتخابی نشان واپس لے لیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے32سوالات بھیجےجن کاتحریری جواب دیا، ہمارابنیادی مؤقف تھاکہ درخواست گزارپارٹی ممبرنہیں ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے20دن میں انتخابات کرانےکاحکم دیا، خدشہ تھاپی ٹی آئی کوانتخابات سےباہرنہ کردیاجائےاس لیےعملدرآمدکیا، پی ٹی آئی نے 2022 میں انٹراپارٹی انتخابات کرائے جوالیکشن کمیشن نےتسلیم نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات جماعت کےآئین کے مطابق کرائے گئے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن کا تنازعہ سول کورٹ میں ہی جاسکتاتھا، پی ٹی آئی کےکسی رکن نےالیکشن چیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن فیئرٹرائل نہیں دےسکتا،نہ ٹرائل ہوا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین نہ الیکشن ایکٹ2017انٹراپارٹی الیکشن کی اسکروٹنی کااختیاردیتاہے، آئین وقانون کسی پارٹی کوانتخابی نشان سےمحروم کرنےکی اجازت نہیں دیتا، میراپہلانکتہ عدالت کےسامنےیہی ہوگا۔

وکیل تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ میرادوسرانکتہ آئین کاآرٹیکل17ہوگا، الیکشن کمیشن بے ضابطگی کےالزام پرانتخابی نشان واپس نہیں لےسکتا، سپریم کورٹ نےکئی فیصلوں میں آئین کےآرٹیکل17کی تشریح کی، ایک نشان پرانتخاب لڑناہرسیاسی جماعت کاحق ہے۔ انتخابی نشان سےمحروم کرنا سیاسی جماعت،عوام کے بنیادی حق کی نفی ہے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ میرا پانچواں نکتہ ہےکہ الیکشن کمیشن نے امتیازی سلوک روار کھا، غلط فیصلہ دیا جائے تو اس کاجوڈیشل ری ویوہوسکتا ہے، میرا اگلا پوائنٹ یہ ہےکہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔