ججز کو ملنے والےخط،سازش بے نقاب   

عامر رضا خان 

Apr 03, 2024 | 16:11:PM
ججز کو ملنے والےخط،سازش بے نقاب   
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

جی ہاں مضمون کا عنوان کو ئی جھوٹ یا فریب نظر نہیں ہے حقیقت ہے  ججز کو موصول ہونے والے خطوط کی سازش ایک طرح سے بے نقاب ہوچکی ہے ان خطوط کے پیچھے چھپے کرداروں تک باآسانی پہنچا  جاسکتا ہے بات صرف کچھ اس بات پر غور کرنے کی ہے کہ اس کا فائدہ کس جماعت ، گروہ یا افراد کو ہوتا ہے ۔
کچھ تاریخ بیان کردوں انتھراکس کی کہ شبہ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ خطوط میں ملنے والا سفو ف انتھراکس ہے ۔ اس زہر کی عوام الناس کو نشاندہی 23 سال قبل اُس وقت ہوئی جب دو امریکی سینیٹرز سمیت چند  افراد جن میں صحافی اور صنعتکار بھی شامل تھے، کو ایسے خطوط موصول ہوئے جن میں ایک خاص قسم کا پاوڈر نما زہر انتھراکس موجود تھا 2001 میں امریکہ میں ہونے والا حملہ ہے۔ کسی نے دو امریکی سینیٹرز اور نیوز میڈیا آفسز کو سفید اینتھراکس پاؤڈر سے بھرے خطوط بھیجے۔ کُل ملا کر بائیس افراد اینتھراکس (11 سانس اور 11 جلد کے انفیکشن) کی زد میں آئے، اور ان میں سے  پانچ کی موت ہوگئی۔ پھر کیا تھا خوف کی لہر پوری دنیا میں پھیل گئی،معشوق اور عاشق کا قلمی رابطہ منقطع ہوگیا ،خط لیجانے اور لانے والے کبوتر (ڈاکیے) کام کرنے سے انکار کرنے لگے، میں اُن دنوں خبریں اخبار میں تھا،ایک آرڈر کے تحت کسی بھی موصول ہونے والے خط کو کھولنے کی اجازت نا تھی،خط ملنے کے بعد ایک خاص پروٹوکول تھا جس میں ماسک اور گلوز پہن کر خط کو ایسے کھولا جاتا تھا ،جیسے اس میں تحریر شدہ کاغذ نہیں، کوئی ٹائم بم نصب کیا گیا ہے جو لفافہ کھولتے ہی دھماکے سے پھٹ جائے گا ، یہ وہ سال تھا جب عید کارڈز کی سیل سب سے کم ہوئی ہر طرف خوف و دہشت پھیلی ہوئی تھی اسی ماحول میں ہم نے پہلی مرتبہ انتھراکس کا نام سُنا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں جس کے مطابق ، اینتھراکس بیضوں سے اینتھراکس انفیکشن ہوتا ہے۔ اس بات پر منحصر ہے کہ ایک شخص کس طرح بے نقاب ہوتا ہے، ان کے مختلف اثرات ہو سکتے ہیں۔ اگر بیضوں کو سانس کے ذریعے جسم میں داخل کیا جائے تو   تو وہ جان لیوا ہو سکتے ہیں۔ اثرات اس وقت ہلکے ہوتے ہیں جب صرف جلد ہی متاثر ہو۔

ضرورپڑھیں:بہت ہوا یہ کام  ! اب فوج کو بلالیں 
اینتھراکس پاؤڈر بنانے کے لیے اینتھراکس بیکٹیریا کو لیبارٹری میں میں بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اینتھراکس پاؤڈر پیوریفائیڈ اینتھراکس بیضہ ہے جن پر عملدرآمد کیا گیا ہے تاکہ وہ ہوا کے ذریعے پھیل سکیں۔

کئی منفرد بیکٹیریا کی خصوصیات کی وجہ سے اینتھراکس کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اس کے بیکٹریا جب انسانی جسم میں سانس کے راستے داخل ہوتا ہے تو انسانی جسم کے لیے زہر قاتل بن جاتا ہے ، یہ متعدی بیکٹریا نہیں ہے اس لیے ایک متاثرہ شخص سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوسکتا ۔
اب آئیے اصل موضوع کی جانب جس کے مطابق اسلام آباد کے 8 ججز کو ایسے خطوط بجھوائے گئے ہیں جن میں کوئی پاوڈر نما سفوف موجود ہے جسے ماضی کی روشنی مین انتھراکس لکھا جارہا ہے یہ ایک دھمکی بھی ہوسکتی ہے اور واقعی کوئی حملہ بھی ۔

یہ بھی پڑھیں:عظمیٰ بخاری کی زندگی کا پوشیدہ راز
اس سے قبل اسلام آباد کے ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس میں اشارتاً کہا گیا تھا کہ ایجنسیاں مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اس خط کی گونج ایوان عدل کے ساتھ ساتھ ایوان عسکر اور ایوان اقتدار میں بھی سُنی گئی جس کے بعد پاوڈر والے خطوط موصول ہوئے ذرا تمام سیاسی اور نظریاتی عقائد کو ایک جانب رکھ کر سوچئیے کہ پاڈر والے خطوط سے کون اپنا مقصد ھاصل کرنا چاہتا ہے طاہر ہے وہی لوگ جو ہماری ایجنسیوں کو بدنام کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے کسی بھی موعہ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اس سازش کی کڑی اندرون اور بیرون ملک سے ملتی ہے تاکہ عام فہم لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ ججز کو ڈرایا جارہا ہے اس کے بعد ایک آدھ جج کا استعفیٰ بھی آسکتا ہے جس کے بعد اس پراپگنڈے کو مزید طاقت فراہم کی جائے گی کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد نہیں  بنانے والوں نے خوب سازش گھڑی ہے ، مین وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن اسلام آباد والے ججز صاحبان کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا چاہیے ار اس سازش کو سمجھنا چاہیے جس میں الزامت کی بندوق چلانے کے لیے اُنکا کندھا استعمال کیا جارہا ہے ۔
ججز کے خط کا معاملہ سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنائے جانے والا بنچ سماعت کر رہا ہے لیکن ان خطوط کے پس پردہ عناصر کو منظر عام پر لانے کا کام ہماری انٹیلی جنس ایجینسیوں کو کرنا ہے جن کے پاس آلات بھی ہین اور وسائل بھی انتھراکس کا تو ہمیں نہیں پتہ لیکن جو گرد ہمارے سسٹم اور اداروں پر اڑائی جارہی ہے اس کا علاج ایجنسیاں ہی کر سکتی ہیں۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر