’میری بیوی تب کومے سے جاگی جب اسکی امید صرف دو فیصد تھی‘

Apr 28, 2023 | 14:59:PM
میری بیوی تب کومے سے جاگی جب اسکا چانس صرف دو فیصد تھا
کیپشن: ازابیل کی عمر اس وقت 45 سال تھی۔ ان کے شوہر 43 سال کے تھے۔ ان کی شادی کو 15 سال ہو چکے تھے اور وہ ایک بچہ گود لینے والے تھے۔
سورس: ٹوئٹر
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) نومبر 2021ء میں ازابیل کارڈوسو نے چھاتی کی سرجری کروائی۔ برازیل میں ہونے والا یہ آپریشن دراصل ایک ٹیومر کو نکالنے کیلئے کیا گیا تھا جس میں چھاتی کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی کاٹنا پڑا تھالیکن اس آپریشن کے بعد ازابیل کو آکسیجن کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوا۔ ان کے شوہر لوسیانو کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ اس کی وجہ کیا تھی۔

دماغ کو آکسیجن کی فراہمی میں کمی کو ’سیریبرل ہائی پوکسیا‘ کہتے ہیں جس میں چند منٹوں میں انسانی خلیوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انسانی دماغ انتہائی حساس عضو ہوتا ہے جسے فعال رہنے کے لیے آکسیجن اور غذائی اجزا کی بلاتعطل فراہمی درکار ہوتی ہے۔

ان کے شوہر بتاتے ہیں کہ ’آپریشن کے بعد ازابیل کو شدید جھٹکے پڑنے لگے جن پر قابو پانے کیلئے ان کو دوائی سے کوما میں لے جانا پڑا۔‘

یہ بھی پڑھیے: الزائمر کی بیماری پر تحقیق میں ایک نئی پیشرفت

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب یہ جانچنے کیلئے ادویات روکی گئیں کہ ازابیل کا جسم کیا ردعمل دیتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ جیسے نیند کی حالت میں تھی۔ کبھی کبھار وہ آنکھیں کھولتی تھی لیکن ہم نہیں جانتے کہ وہ ہمیں دیکھ بھی پاتی تھی یا نہیں۔‘

ازابیل کی عمر اس وقت 45 سال تھی۔ ان کے شوہر 43 سال کے تھے۔ ان کی شادی کو 15 سال ہو چکے تھے اور وہ ایک بچہ گود لینے والے تھے۔

لوسیانو کہتے ہیں کہ ’ہم نے زندگی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، بہت سے کام مل کر کرنے کے خواب دیکھ رکھے تھے۔ مجھے امید تھی کہ وہ کوما سے نکلے گی اور ہم گھر جا سکیں گے تاکہ اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کر سکیں۔‘

لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس بات کے امکانات کم ہوتے چلے گئے کہ ازابیل اب پرانی زندگی میں واپس لوٹ سکیں گی۔ ایک سال تک کوما میں رہنے والے شخص کی بحالی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔

لوسیانو کو بتایا گیا کہ ان کو اپنی اہلیہ کو اسی حالت میں گھر لے جانا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں ’میرے لیے یہ بہت تکلیف دہ تھا کیوںکہ میرا خیال تھا کہ وہ ٹھیک ہونے تک ہسپتال میں رہ سکے گی۔‘

شروع میں ان کو یہ سمجھنے میں وقت لگا کہ وہ گھر پر اپنی اہلیہ کا خیال کیسے رکھ سکیں گے۔

لوسیانو نے اپنی اہلیہ کا خیال رکھنے کے لیے اپنے کام سے وقت نکالا۔

تاہم بستر میں ساکت رہنے کی وجہ سے ایسے مریضوں کی صحت زیادہ خراب ہو جاتی ہے اور ان کو بار بار ہسپتال جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

’ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ اب یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی اور اس کے جاگنے کا امکان صرف دو فیصد ہے۔‘

لوسیانو نے دو فیصد کے نمبر سے ہی امید جوڑ لی۔

یہ بھی پڑھیے: انسانی جسم میں موجود قدیم وائرس کینسر کیخلاف مددگار ثابت ہوسکتا ہے

رواں سال مارچ میں ازابیل کو ٹریکیا برونکائٹس کے علاج کیلئے ہسپتال لے جایا گیا لیکن علاج کے دوران ہی ان کو جھٹکے پڑنے لگے۔ ان کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کر دیا گیا۔

ایک نرس نے، جو ازابیل سے واقف تھیں، ان کو ہر بار کی طرح صبح بخیر کہا۔ لیکن اس بار ازابیل نے حیران کن طور پر جواب دیا۔

لوسیانو بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے ازابیل کو دیکھا تو اپنا منہ ہلا رہی تھی۔ کیوںکہ اس کے گلے میں ایک ٹیوب موجود تھی تو ہمیں اسے تھوڑا ہٹانا پڑا اور ازابیل نے کافی مشکل سے میرا نام لے کر سر ہلایا کہ وہ جانتی ہیں کہ وہ ہسپتال میں ہیں۔‘

’یہ بہت جذباتی لمحہ تھا۔ مجھے اس وقت یاد آیا کہ ڈاکٹر نے ہمیں صرف دو فیصد امکان بتایا تھا لیکن میری بیوی جاگ گئی۔‘

ڈیڑھ سال سے ازابیل کے علاج میں شامل ڈاکٹر اور نرسیں بھی وہاں پہنچ گئے۔

اس ہسپتال کے آئی سی یو کے کوآرڈینیٹر گسٹاوو ٹارے کا کہنا ہے کہ ’ازابیل کا جاگ جانا سب کے لیے حیران کن تھا۔‘

ڈاکٹروں کے لیے یہ اب تک ایک معمہ ہے۔ گسٹاوو کا کہنا ہے کہ ’ازابیل کو کوئی نئی دوائی نہیں دی گئی۔‘ ہسپتال میں اس کیس کو ’آئی سی یو فور کا معجزہ‘ قرار دیا گیا۔

اس معجزے نے لوسیانو کی امید کو جگا دیا۔ ان کو معلوم تھا کہ مشکلات ہوں گی لیکن وہ پرامید تھے کہ ازابیل ایک بار پھر سے عام زندگی گزار سکے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح تھا کہ دماغ کو پہنچنے والے تمام تر نقصان کے باوجود ازابیل کی یادداشت کسی حد تک برقرار تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے: کیا وقت سے پہلے کینسر کا پتہ لگانا ممکن ہے؟

ازابیل کو اپنا نام یاد تھا اور وہ خاندان کے لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتی تھیں۔ تاہم ان کو اپنے پالتو کتے کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا۔

لوسیانو نے گھر پر ازابیل کی سپیچ تھراپی اور فزیو تھراپی شروع کروائی۔ ’میں نے اس کے بالوں کا خیال رکھنے کے لیے ماہرین کی مدد لی۔ میں اس کی جلد کی نمی کا بھی خیال رکھتا تھا۔‘

انھوں نے ایک ماہر نفسیات کی بھی مدد حاصل کی۔

یہ روزانہ کی بنیاد پر بہتری کی جانب جانیوالی اس مریض کی ایک انوکھی کہانی ہے جس کے متعلق سوالات کے جوابات خود ڈاکٹر تلاش کررہے ہیں۔