کیا وقت سے پہلے کینسر کا پتہ لگانا ممکن ہے؟

Mar 31, 2023 | 12:27:PM
کیا وقت سے پہلے کینسر کا پتہ لگانا ممکن ہے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) امریکی دوا ساز کمپنی گارڈنٹ ہیلتھ نے ٹیکنالوجی کی مدد سے ،بریک تھرو، بلڈ ٹیسٹ تیار کر لیا ہے جو وقت سے پہلے کینسر کا پتا لگا لیتا ہے۔

تفصلات کے مطابق امریکی فارماسوٹیکل کمپنی گارڈنٹ ہیلتھ نے ٹیکنالوجی کی مدد سے ،بریک تھرو، بلڈ ٹیسٹ تیار کر لیا ہے جو وقت سے پہلے کینسر کا پتہ لگا لیتا ہے اور جس کی بدولت ہزاروں مریضوں کو کیموتھراپی سے  بچایا جا سکتا ہے۔

 کام کے اعتبار سے یہ ٹیسٹ خون میں کینسر کے خوردبین نشانات کو تلاش کرتا ہے۔ جن کی بروقت تشخیص کے باعث ان کا علاج وقت سے پہلے کیا جا سکے گا۔ اس ٹیسٹ کی بدولت ڈاکٹرز آپریشن کر کے متاثرہ حصے کو نکالنے کا فیصلہ بھی کر سکیں گے۔یہ بلڈ ٹیسٹ خون میں کینسر کے خوردبین نشانات کو تلاش کرتا ہے جسے سرکولیٹری ٹیومر ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ اسکین کے دوران نظر نہ آنے والے مارکروں کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مریض سرجری سے ٹھیک ہوا یا نہیں۔ 

مزید پڑھیں: افطار کے فوراً بعد سگریٹ نوشی کرنیوالوں کیلئے بری خبر

لندن کے رائل مارسڈن اسپتال میں ایک ریسرچ کیلئے آنتوں کے کینسر میں مبتلہ 1600 مریضوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔محققین کا ماننا ہے کہ آنتوں کے کینسر کے تیسرے درجے کے علاج کیلئے صرف آپریشن ہی کافی ہو گا اور مریضوں کو آپریشن کے بعد کیموتھراپی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ 

اس مطالعہ کی پرنسپل ریسرچر ڈاکٹر نورین سٹارلنگ کا بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر سال آنتوں کے کینسر کے ہزاروں مریض اس سے مستفید ہو سکتے ہیں، تیسری اسٹیج کے آنتوں کے کینسر میں مبتلہ مریض صرف سرجری سے ٹھیک ہو سکتے ہیں، اس لیے ہم مریضوں کی ایک بڑی تعداد کا علاج کر رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ خاص ٹیکنالوجی کینسر کے بہت سے مریضوں کو غیر ضروری کیموتھیراپی سے بچا سکتی ہے، یہ مریضوں کیلئے اچھا ہے، یہ صحت کی خدمات کیلئے اچھا ہے، اس سے ہسپتالوں میں کینسے کے علاج کیلئے لاگت میں بچت ہو گی اور یہ کینسر کے خلاف ایک جیت ہو گی۔ 

لازمی پڑھیں: ماہ رمضان کے انسانی صحت پر اثرات

لندن میں جاری ریسرچ ،ٹراس(TRACC)، میں امریکا کی فارماسوٹیکل کمپنی کا تیار کردہ ،بریک تھرو، ٹیسٹ استعمال کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے لیے گئے خون کے نمونے امریکی ریاست کیلیفورنیہ میں موجود اس کمپنی کی لیب میں بھیجا جاتا ہے جس کے نتائج پندرہ دن بعد آتے ہیں۔ 

لندن میں جاری ریسرچ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ تین سال بعد ٹیسٹ کی رہنمائی میں شفایافتہ مریضوں کے مقابلے میں معیاری کیموتھراپی کے ذریعے علاج یافتہ مریضوں میں بقا کی کیا شرح پائی جاتی ہے۔ اس ریسرچ میں چھاتی اور پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلہ مریضوں کا بھی اسی انداز میں معائنہ کیا جا رہا ہے۔