ایرانی صدر کا دورہ پاکستان،امریکا نے نیا محاذ کھول دیا

Apr 24, 2024 | 11:10:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)ایرانی صدر ابراہیم کا دورہ پاکستان کا دوسرا روز، ایرانی صدر آج لاہور پہنچے جہاں مریم نواز نے ان کا پر تپاک استقبال کیا۔ جس کے بعد ایرانی صدر نے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور گفتگو بھی کی ۔ اور اپنی گفتگو میں ایرانی صدر نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کے عوا م کے اجتماع سے خطاب کرتے لیکن حالات نے اس بات کی اجازت نہیں دی ۔ان کی خواہش اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ملک خداد کے حالات ایسے ہیں کہ ایرانی صدر کا عوام سے خطاب کرنا تو دور پاکستان کے اپنے صدر کا مشترکہ اجلاس تک سے خطاب جان جوکھوں کا کام ثابت ہوا۔نعرہ بازی،سیٹیوں ،ہلڑ بازی سے ان کے خطاب کو مسلسل خراب کرنے کی کوشش کی گئی ،ان حالات میں کسی غیر ملکی صدر کے خطاب کا سوچنا بھی محال نظر آتا ہے۔ ایرانی صدر اور وزیر اعظم کی ملاقات کی اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اور ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات ہوئی جس میں دونوں اطراف کے وزرا اور اعلیٰ حکام موجود تھے۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے دائرہ کار پر تبادلہ خیال کیا اور اہم علاقائی اور عالمی پیشرفت پر بات چیت کی جبکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات ، خاص طور پر تجارت، توانائی، روابط، ثقافت اور عوام سے عوام کے رابطوں کے شعبوں میں تعاون کو وسیع پیمانے پر بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان اور ایران نے اگلے 5 سالوں میں دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک مذہب، ثقافت، تہذیب اور ہمسائیگی کے رشتوں میں بندھے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ایران، پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے، ہماری سرحدوں پر ترقی و خوشحالی کے مینار قائم ہوں اور انہیں کاروبار، خوشحالی اور نظر آتی ترقی میں تبدیل کریں، اقوام متحدہ اور اقوام عالم کو غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، پاکستان اور ایران نے ہمیشہ کشمیری اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ دوسری جانب سرائیل ایران کی کشیدگی کی تناظر میں یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پوری دنیا کی نظریں اس دورے پر ہیں خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک کی ۔ اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے تجارتی حجم دس ارب ڈالر لیجانے کے عزم کا اظہار تو کیا ہے لیکن وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں ایران گیس پائپ لائن کا مسئلے کا سرے سے ذکر تک موجود نہیں تھا۔ ایرانی صدر کے دورے کے وقت یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو راضی نہیں کر سکتا تو کم سے کم ایرانی صدر سے اس متعلق بات کر کے جرمانے سے بچنے اور ڈیڈ لائن میں توسیع کی کوشش کر سکتا ہے۔لیکن اب تک کی پیش رفت کے مطابق اب تک ایسی کسی بھی کوشش کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔دوسری جانب امریکہ مسلسل پاکستان کو ایران کے قریب آنے سے باز رکھنے کوشش میں مصروف ہے ۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھو ملر نے اب بھی ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کو ایران سے تجارتی معاہدے پر ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران سے معاہدوں پر پاکستان پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف امریکا ممکنہ پابندیوں کا جائزہ نہیں لے رہا تاہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے، تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو ممکنہ پابندیوں کے خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکا، پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی اور اس کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے، امریکا 20 برس سے پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار بھی ہیں، پاکستان کی اقتصادی کامیابی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، ہم اپنی شراکت کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔آج امریکہ نے پاکستان پر ایران سے تجارت پر باز رہنے کا کی بات کی ہے۔اس سے قبل ماضی قریب میں ہی امریکہ مسلسل پاکستان کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے حوالے سے بھی خطرات سے آگاہ کرتا رہا ہے۔سابق امریکہ سفیر میتھو ملر نے کانگریس مین پیشی کے دوران اس متعلق بات کی اور اس کے بعد میتھو ملر نے بھی اپنی پریس بریفنگ میں اس پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان امریکہ کو یا تو راضی کرنے کی کوشش کرے ورنہ ملکی مفاد کے مطابق فیصلے لے کیونکہ ایران پاک پائپ لائن منصوبہ پر اگر امریکہ کو اعتراض ہے تو وہ یہ اس کا مسئلہ ۔سابق سفارت کار مدیحہ لودھی کا اس بارے میں کیا کہنا ہے اس کی ایک جھلک آپ کو دکھاتے ہیں،یہاں سوال یہ ہے کہ ایسے وقت جب ایران اسرائیل کشیدگی زور پر ہے اس دوران ایرانی صدر کا پاکستان کا دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی طاقتیں اس پر کیا ردعمل کا اظہار کریں گے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اس دورے کو اپنے حق اور فائدے میں کرنے کے لیے کیا کیا ہے۔کیا پاکستان ایرانی صدر سے گیس پائپ لائن معاہدے میں کوئی ریلیف لے گا؟

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: