مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،اس عدالت نے مارشل لاء کو قانونی راستے دئیے: چیف جسٹس

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی۔

Oct 03, 2023 | 09:48:AM
 مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،اس عدالت نے مارشل لاء کو قانونی راستے دئیے: چیف جسٹس
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(امانت گشکوری)سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کی سرکاری ٹی وی کے ذریعے براہ راست کوریج کی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا اورعدالت عظمٰی کی تاریخ میں پہلی بار سماعت کوبراہ راست نشر کیا گیا۔

ضرورپڑھیں:نوازشریف کی واپسی،کورٹ مارشل؟آرمی چیف کا اعلان ، تہلکہ خیز انکشافات 

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہےکہ آج اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور دو سینئر ججزپرہوگا، اختیارات کوکم نہیں بانٹا جارہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہوگا، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ایسانہیں سمجھتے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں: چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر  وکلا ہیں، سب کوسنیں گے۔

سماعت کے دورا اکرام چوہدری نے سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ خبریں نا پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نا کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آگئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کرونگا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے، حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہےتوبات ختم ہوگئی،  آپ کی دلیل ہےکہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائےتوٹھیک ہے، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں توکیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یالوگوں کے لیے ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہےکہ اس کا ہرصورت دفاع کرناہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیےنہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں، اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہےکہ بیواؤں کےکیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی؟ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سازی انصاف دینےکا راستہ ہموار اور دشوارکررہی ہے تویہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اورسے بھی ہے؟  پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں،  اگر آپ نے اپنےمعلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تویہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکرکو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کربے بنیاد دلیل سنے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ میرا سوال یہ ہے انصاف تک رسائی کیسے آئین کیخلاف ہے،انصاف تک رسائی کا حق دینا آئین کی بنیاد ہے۔

فرد واحد آمر ہویا جو بھی ہو اس نے ملک کی تباہی کی:چیف جسٹس

مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،مولوی تمیز الدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے؟انہوں نے کہا آئین کےساتھ جوکھلواڑ کرنا چاہو کرو،پاکستان کےساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے،پارلیمنٹ کی قدر کرنی چاہئے۔اس عدالت نے مارشل لاء کو قانونی راستے دیئے،دیکھیں دنیا میں ہماری عدالت کا کیا نمبر ہے،فرد واحد آمر ہویا جو بھی ہو اس نے ملک کی تباہی کی،چیف جسٹس کے فائدے کو چھوڑ دیں یہ دیکھنا ہے عوام کا فائدہ ہے یا نہیں۔

اس قانون کی سمت صحیح ہے یا نہیں؟کیا پاکستان کی تاریخ کو چھوڑ کر اس قانون کو دیکھ سکتے ہیں،ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا توٹھیک، زیادہ ججز کریں تو غلط ہے؟ یہ قانون ایک شخص کےلیے کیسے ہے یہ بھی سمجھ نہیں آیا، سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں،اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ مارشل لا کی توثیق غلط ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہ کہ آپس میں ججز سے مشاورت کرتے ہیں کہ آج کیس ختم کریں یا آگے تاریخ دیں،پیر کو کیس ختم کر دیں گے،کیس کی سماعت پیر 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

پی ٹی آئی ،ق لیگ کی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے قبل فریقین نے سپریم کورٹ میں تحریری جوابات جمع کرا دیے ہیں، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے ایکٹ کو برقرار رکھنے جب کہ درخواست گزاروں اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اپنے تحریری جوابات میں ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے ججز کے سوالات پر مبنی اپنے جواب میں کہا کہ 8 رکنی بینچ کی جانب سے قانون کو معطل کرنا غیر آئینی تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملات میں شفافیت اور بینچز کی تشکیل میں بہتری آئے گی، مفروضے کی بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

مسلم لیگ (ن) اور (ق) نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے اپنے جواب میں کہا ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، سپریم کورٹ رولز 1980 کی موجودگی میں عدالت عظمیٰ سے متعلق پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی۔

درخواست گزاروں کے وکیل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی نے درخواستیں منظور کرکے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔

پی ٹی آئی کی پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی مخالفت

 جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر تو ایک اچھا قانون ہے جس پر وکیل پی ٹی آئی عذیر بھنڈاری نے جراح کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کسی صورت اچھا قانون نہیں ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر میں کہاں لکھا ہے کہ مقدمات کیسے مقرر ہونگے؟ قانون صرف بنچز تشکیل دینے کے حوالے سے ہے۔

 جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے وکیل پی ٹی آئی کی جراح پر ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز ہیں، چیف جسٹس رولز کے تحت ججز کو انتظامی امور سونپتے ہیں، تین رکنی کمیٹی بن گئی تو کیا ججز کے درمیان برابری کا اصول ختم نہیں ہوجائے گا؟   جسٹس اطہر من اللہ نے بھی سوال اٹھایا کہ ممکن ہے کل پی ٹی آئی اقتدار میں آئے تو پارلیمان کے ویژن کو کیوں چیلنج کر رہی ہے؟ دنیا میں کوئی مثال ہے کہ کسی اچھے قانون کو کالعدم قرار دیا گیا ہو؟ 

پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے ججز کے سوال پر جواب دیا کہ بھارت میں عدلیہ کی آزادی سے متعلق پوری آئینی ترمیم کالعدم ہو گئی تھی۔ جس پر  چیف جسٹس کا جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے مطابق میرے دائیں بائیں بیٹھے یہ فرشتے مجھ پر نظر رکھیں گے۔

چیف جسٹس کا خوشی کا  اظہار

درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے فاضل ججز سے کہا کہ لاہور کیلئے نکلنا ہے اور اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ مجھے بہت خوشی ہے آپ کے جواب کا ایک ایک لفظ پڑھوں گا۔ چیف جسٹس کی پی ٹی آئی وکیل کو آئین کا پہلا صفحہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں کبھی امریکہ لے جاتے ہیں کبھی کہیں آئین پڑھیں، آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ پاک کی ہے،قرآن پاک میں بھی مشاورت سے کام کرنے کے احکامات ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی مشاورت سے فیصلے کا کہتا ہے۔

چیف جسٹس کا کیس کو جلد ختم کرنے کی ڈیڈ لائن

چیف جسٹس پاکستان نے اختتامیہ ریمارکس دیئے کہ پیر کو کیس ختم کر دیں گے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیس کی سماعت پیر 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔