آڈیو، ویڈیوز کا معاملہ: عمران خان نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ دیا

Feb 20, 2023 | 13:11:PM
سابق وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے یکے بعد دیگر منظرِ عام پر آنے والی آڈیو اور ویڈیو لیکس کے تدارک کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو تفصیلی خط لکھ دیا
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(کفایت علی) سابق وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے یکے بعد دیگر منظرِ عام پر آنے والی آڈیو اور ویڈیو لیکس کے تدارک کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو تفصیلی خط لکھ دیا۔

عمران خان نے معاملے پر گزشتہ برس اکتوبر میں دائر آئینی درخواست فوری سماعت کیلئے مقرر کرنے، چیف جسٹس اور معزز ججز سے آئین کے تحت بنیادی حقوق خصوصاً آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کیلئے اقدامات کی استدعا کر دی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے معاملے کے حوالے سے 8 اہم ترین سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیئے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی مہینوں سے مشکوک اور غیرمصدقہ آڈیوز، ویڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کا سلسلہ جاری ہے، منظرِعام پر آنے والی مبینہ آڈیوز، ویڈیوز مختلف موجودہ و سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کے مابین گفتگوؤں پر مبنی ہیں۔

عمران خان نے خط میں سوال اٹھایا کہ منظرِعام پر آنے والی آڈیوز، ویڈیوز غیر مصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان آڈیو، ویڈیوز کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کر کے ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند ماہ پہلے بعض ایسی آڈیوز منظرِعام پر آئیں جن کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے دفتر یا ہاؤس سے متعلق تھیں، ان آڈیوز سے تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر، ہاؤس کی خفیہ نگرانی یا یہاں ہونے والی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگز ایک معمول تھا۔

سابق وزیراعظم نے خط میں مزید کہا کہ ایوانِ وزیراعظم بلاشبہ ریاست کا حساس ترین ایوان ہے جہاں قومی حساسیت کے حامل معاملات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے، ایوانِ وزیراعظم کی سیکیورٹی پر نقب سے عوام کی سلامتی، تحفظ اور مفادات و حیات پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی شواہد موجود ہیں کہ ان غیر مصدقہ و جعلی آڈیوز، ویڈیوز کے ذریعے تنقیدی آوازوں کو دبایا جانا مقصود ہے، مجھ سمیت کئی سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد ان جعلی، غیرمصدقہ اور کانٹ چھانٹ سے تیار کردہ لیکس کا نشانہ بن چکے ہیں، دیگر بہت سے افراد کے ساتھ سینیٹر اعظم سواتی کے پرائیویسی کے بنیادی آئینی حق کو بری طرح پامال کیا گیا۔

عمران خان نے خط میں کہا کہ جناب عالی! پاکستان میں آئین کی تخلیق کے دوران متعدد حقوق کو دستور کا حصہ بنایا گیا، دستور کا آرٹیکل 4 ہر شخص کو قانون کا تحفظ فراہم کرتا اور قانون ہی کے تحت سلوک کا حق دیتا ہے، یہی دستور ہر فرد کی عزت و ناموس اور چادر و چار دیواری کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے، مگر دستور کے تحت افراد کو میسر یہ حقوق ناقابلِ جواز ڈھٹائی اور صریح دیدہ دلیری سے پامال کئے جا رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے سوال اٹھایا کہ پرائیویسی سمیت دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے میں نے اکتوبر 2022 میں ان آڈیو لیکس پر آرٹیکل 184(3) کے تحت معزز عدالت کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی، بدقسمتی سے اب تک میری یہ درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ کی جا سکی، میری درخواست کے بعد معاملات بہتری کی بجائے مزید ابتری کے شکار ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا محاسبہ نہ ہونے پر ان میں ملوث کردار مزید بے خوف ہوکر اس جعلی مواد کو فروغ دے رہے ہیں، بدقسمتی سے حال ہی میں سابق وزیراعلیٰ اور سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے مابین مبینہ گفتگو خفیہ طور پر سماجی میڈیا پر جاری کی گئی، واضح ہوچکا کہ اب عوام معمول کے تحت اس خفیہ نگرانی و ریکارڈنگز کا نشانہ بن رہے ہیں، ان ریکارڈنگز کو اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ، توڑ مروڑ اور ردوبدل کرکے منظرِعام پر لانے کا سلسلہ بلا روک جاری ہے۔

 چیئرمین تحریک انصاف نے چیف جسٹس اور معزز ججز کے سامنے 8 سوالات اٹھائے کہ کون سا قانون عوام الناس کی اس وسیع پیمانے پر نگرانی و خفیہ ریکارڈنگز کی اجازت دیتا ہے، یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قانون اس نگرانی و ریکارڈنگز کا حق کسے دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کی حدود و قیود کیا ہیں، یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا، اس سوال کا جواب بھی لازم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز سے حاصل کئے گئے مواد کی حفاظت کا کیا انتظام ہے۔

 عمران خان نے خط میں سوال اٹھایا کہ کیا محض کسی کی مرضی سے شہریوں کی باہم بات چیت خفیہ طور پر ریکارڈ اور توڑ مروڑ کر منظرِعام پر لانے کو گوارا کیا جاسکتا ہے، گزشتہ چند ماہ سے جاری قانون سے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اس سلسلے کو روکنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے، آیا ہمارے وہ حساس ترین ایوان جہاں اہم ترین معاملات پر فیصلہ سازی کی جاتی ہے، محفوظ ہیں۔

سابق وزیراعظم نے خط میں مزید لکھا کہ اگر آئین کے تحت فراہم کردہ حقوق کچھ اہمیت رکھتے ہیں تو پاکستان کے عوام ان سوالات کے جوابات کے حقدار ہیں، میری استدعا ہے کہ ان غیرمصدقہ و غیر مجاز آڈیو لیکس کے معاملے پر میری آئینی درخواست فوراً سماعت کیلئے مقرر کی جائے۔

 عمران خان نے کہا کہ ملک کے اعلیٰ ترین ایوانِ عدل سے دستور کے تحت میسر حقوق کے تحفظ کی ضمانت کے حصول کی خواہش یقیناً تنہا میری ہی نہیں، قوم امید کرتی ہے جب دستور انہیں کچھ حقوق فراہم کرتا ہے تو بہرحال ان حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔