ملتان: ہندو برادری شمشان گھاٹ موجود نہ ہونے سے پریشان ، قدیم پرہلاد مندر بھی کھنڈرات میں تبدیل 

رپورٹ:سہیرا طارق

Jan 19, 2024 | 16:08:PM
ملتان: ہندو برادری شمشان گھاٹ موجود نہ ہونے سے پریشان ، قدیم پرہلاد مندر بھی کھنڈرات میں تبدیل 
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

کہتے ہیں کسی بھی ملک میں امن اور انسانی حقوق کی حفاظت کو ماپنے کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ دیکھا جائے اس ملک میں اقلیتیں کیسے رہ رہی ہیں۔دین اسلام میں بھی اقلیتوں کی مذہبی آزادی بارے بات کی گئی ہے ۔ سورت یونس کی آیت نمبر99 میں ذکر ہے کہ (اور اگر تیرا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے، پھر کیا تو لوگوں پر زبردستی کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں)

آئین پاکستان کی شق 20 سے لے کر 27 تک میں ہر فرد کو بلا کسی امتیاز اپنے مذہب پر عمل کی آزادی، مذہب کی بنیاد پر کوئی ٹیکس لینے، کسی مذہبی امتیاز کی بناء پر تعلیم سمیت املاک کے تحفظ اور دیگر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے،جس میں ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے لیکر ان کی مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی شامل ہے۔ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات  کی حفاظت کرے گی ۔ سیکشن 296 میں کسی مذہبی تقریب میں خلل ڈالنے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے جب کہ سیکشن 297 میں قبرستانوں کی توہین کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295 میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص کسی بھی عبادت گاہ کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان پہنچائے یا کسی بھی مذہب کی توہین کرے اسے دو سال کی قید کی سزا دی جائے گی۔

پاکستان کے ہرصوبے میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں کم و بیش 48 لاکھ کی آبادی رکھنے والا جنوبی پنجاب کا دارالخلافہ سمجھا جانے والا شہرملتان یوں تو مسلمانوں کے پیشواؤں اور مختلف اولیا اللہ کے مزاروں سے مشہور ہے لیکن اس شہر میں دیگر مذاہب جیسا کہ ہندو سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں ضلعی انتظامیہ کے مطابق ملتان میں ہندو کمیونٹی کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے۔

ہندوؤں کا سب سے پرانا مندر پرہلاد مندر جو کہ ملتان میں واقع ہے یہ مندر بھگت پرہلاد مندر کے نام سے مشہور تھا اور دنیا میں پہلی ہولی کا تہوار یہاں ہی منایا گیا  لیکن افسوس یہ ہے کہ اب ہندوؤں اس مندر میں نہیں جاسکتے کیونکہ یہ اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکا۔ نوے کی دہائی میں بابری مسجد کو جب گرایا گیا تو اس کے رد عمل میں اس مندر کو بھی مسمار کردیا گیا جو کہ آج تک کھنڈرکا منظر پیش کررہا ہے اور شہر میں رہنے والے سینکڑوں ہندو اس تاریخی مندر میں درشن کو ہی نہیں جاسکتے۔

ڈاکٹر کشور مراد ملتان میں ہندو برادری کے سربراہ اور سابق ممبر ایڈوائزری کونسل برائے اقلیتی اموررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں اور ملتان شہر میں چار سو کے قریب ہندو گھرانے اور چھ ہزار افراد آباد ہیں، تاہم عبادت کے لیے صرف تین مندر ہیں۔ ان میں ڈبل پھاٹک کمہار منڈی میں بالمیک مندر، باغ لانگے خاں میں کبیر نواس مندر اور نصرت کالونی میں کرشنا مندر شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں:ملک دشمنوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والا مسیحی نوجوان

یوں تو ملتان میں ہندوؤں کے چھوٹے بڑے 101 مندر ابھی بھی موجود ہیں مگر سب ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ایک بھی مندر ایسا نہیں جہاں تمام ہندو کمیونٹی جمع ہو کر اپنی رسومات ادا کر سکے زیادہ تر ہندو خاندان مختلف اوقات میں اپنے گھروں میں پوجا کا اہتمام کرتے ہیں، جہاں مرد، خواتین اور بچے جمع ہوکر اجتماعی عبادت کرتے ہیں اور مذہبی بھجن بھی سنتے ہیں ہندوؤں کی بڑی تعداد آج بھی ملتان کے ریلوے سٹیشن کے اطراف میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان ہندوؤں کو کہنا ہے کہ انہیں آج بھی اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق میت کو جلا نہیں سکتے کیونکہ شمسان گھاٹ موجود نہیں، جس کے باعث انہیں مردہ دفنانا پڑتا ہے ،ہندو برادری کے مطابق انہیں تہوار پر بھی محدود جگہوں پر رہ کر ہی دن گزارنا پڑتا ہے۔

شکنتلا دیوی کا تعلق ہندو مذہب سے ہے وہ گزشتہ 15 برس سے ڈبل پھاٹک کی کچی آبادی میں مقیم سماجی کارکن ہیں اور ہندو برادری کی فلاح و بہبود کے لیے سماج سیوا آرگنائزیشن بھی چلا رہی ہیں ان کے مطابق ہندوؤں کے مندروں کی کمی اور 22 لاکھ آبادی والے شہر میں ہندوؤں کے لیے ایک بھی شمشان گھاٹ کا موجود نہ ہونا اس کمیونٹی کا سب سے اہم مسئلہ ہے  شکنتلا دیوی نے بتایا کہ ملتان کے علاقے ڈبل پھاٹک چوک پر ہندوؤں کی کچی بستی آباد ہے جہاں پر کل 40 گھر ہیں اور ہر گھر میں 6 سے 8 افراد رہائش پذیر ہیں ، اسی طرح لودھی کالونی ، باغ لانگے خان اور رشید آباد کی ہر کالونی میں 400 سے زائد ہندو افراد رہائش پذیر ہیں۔

ہندو پنڈت راج کپور کا کہنا ہے کہ  500 افراد پر مشتمل ان کی اس آبادی کے لیے صرف ایک مندر( بالمیک مندر) موجود ہے اس مندر کی تعمیر 1971 میں ہندو مذہب کی جانب سے اپنی عبادت کے لیے کی گئی 50 سال پرانے اس مندر کی تعمیر و مرمت کے لیے پہلی بار فنڈز سن 2019 میں جاری کیے گئے اور سابق ایم پی اے مہندر پال سنگھ کی کاوشوں سے اس مندر کی تزین و ارائش کا کام 50 لاکھ کی گرانٹ سے مکمل کیا گیا ۔تزئین و آرائش کرنے کے بعد چار سال گزر گئے مگر دوبارہ کوئی فنڈز نہیں مل سکے اس مندر کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کے لیے ہندو برادری اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کرکے کام کرواتے ہیں۔

پنڈت راج کپور نے بتایا کہ اس مندر میں بیک وقت 30 سے 40 ہندو افراد کے داخل ہونے کی گنجائش ہے،ان کی آبادی کے لیے یہ مندر بہت چھوٹا ہے، ہر سوموار کو ہندو کمیونٹی 4 سے 5 گھنٹے اپنی عبادات کے لیے مندر میں جاتے ہیں اور روزانہ شام کے وقت سندھ یا( عبادت) بھی کرتے ہیں، مندر میں جگہ نہ ہونے کے باعث زیادہ تر افراد کو مندر کے باہر کھڑے رہ کر یا گلی میں بیٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے ،ان کے مطابق ہندو کمیونٹی کو اپنی عبادات میں مخصوص بھجن گانے اور بجانے کے حوالے سے بھی اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہندو کمیونٹی کو دیوالی ، ہولی ، شویاتری تہوار پر کسی ایک جگہ جمع ہو کر رسومات ادا کرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔

خوشوند راج کا تعلق لودھی کالونی میں مقیم ہندو کمیونٹی سے ہے،انہوں نے بتایا کہ یہاں پر ہندو افراد خوف کی زندگی گزار رہے ہیں ان کا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا مذہبی تہوار ہو وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ،سیکیورٹی کے بغیر کوئی رسم ادا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں کر تہوار پر وہ کوشش کرتے ہیں کہ گھر سے باہر نہ نکلنا پڑے یہ مندر گزشتہ 27 سال سے ایک کھنڈر کی صورت بنا ہوا ہے۔ 1992 میں بھارت میں انتہا پسندوں کی جانب سے تاریخی بابری مسجد کے منہدم کیے جانے کے بعد پاکستان میں سخت ردعمل سامنے آیا اور مشتعل مظاہرین نے ملتان میں اس تاریخی مندر کو بھی مسمار کر دیا۔ اس کے بعد بڑے عرصے تک یہ مندر بند پڑا رہا ۔

ہندو برادری  کی جانب سے مندر کو دوبارہ تعمیر کرانے اور یہاں عبادت کی اجازت کا مطالبہ بار ہا کیا گیا سپریم کورٹ کے حکم پر مندروں کی صورتحال جانچنے کے لئے بنائے گئے کمیشن نے جنوری   2021کو پرہلاد پوری مندر کا دورہ کیا کمیشن نے پر ہلاد مندر کا معائنہ کیا، مندر کے ایریا،نگرانی اور بحالی کے بارے دریافت کیا۔ بعد ازاں کمیشن نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی

اس رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ مندر تاریخی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے اس کی بحالی سے ملکی اور بین الاقوامی سیاحت کو فروغ ملے گا اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مثبت پہلو اجاگر ہو گا  ضلعی انتظامیہ کے ترجمان کے مطابق ملتان کی مقامی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے مذہبی لوگوں کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مندر کی بحالی اور ہندووں کو یہاں مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت دینا بین المذاھب ہم آہنگی کی پرامن فضا کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے جس کے باعث ضلعی انتظامیہ اور مشترکہ کمیٹیوں کی جانب سے مندر کی بحالی کے منصوبے کو عملی شکل نہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہندو برادری کو ہولی کا تہوار اس مندر میں بھرپور انداز میں منانے کے لیے امید کی جو کرن نظر آنے لگی تھی اس اعلان کے بعد وہ بھی ختم ہو گئی آج بھی مندر کو تالا لگا ہوا ہے کسی بھی ہندو یا عام شہری کو پرہلاد مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

مولانا محمد اسلم ملک مدرسہ جامعتہ العلوم میں دینی تعلیمات کی درس وتدریس سے وابستہ ہیں انکا کہنا ہے کہ اسلام یہ اجازت دیتا ہے کہ ہندو مذہب کے لوگوں کی عزت و احترام ، صحت ، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ریاست ان کی معاونت کرے ،ہندو یا دیگر کسی بھی مذہب کو   نہ ان کی مذہبی رسومات ، عبادات کی ادائیگی سے روکا جا سکتا ہے نہ ہی کوئی جبر کیا جا سکتا ہے ،اسلام کسی اقلیت کے حقوق نہیں چھینتا بلکہ ان کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہندو اور تمام اقلیتوں کے تحفظات دور کرے ۔

ڈاکٹر کشور مراد( نمائندہ ہندو برادری)  نے بتایا کہ ہندوؤں کی آبادی کے لحاظ سے مندر ناکافی ہونے کے مسئلے پر ڈپٹی کمشنر سطح پر بارہا اجلاس کیے گئے مگر کبھی کوئی حل نہیں نکل پایا ہندوؤں کے مندروں کی بحالی اور شمشان گھاٹ کے مطالبے کے لیے گزشتہ سال بھی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈپٹی کمشنر نے دریا جناب کے پاس موجود جگہ کو ہندوؤں کو شمشان گھاٹ کے لیے الاٹ کرنے کا اعلان تو کیا مگر اس پر عمل درامد نہیں ہو سکا۔

ترجمان ڈپٹی کمشنر کے مطابق دریائے چناب  کے قریب جگہ کو شمشان گھاٹ کے لیے الاٹ کرنے میں کئی مسائل کا سامنا ہے، یہ جگہ آبادی سے کافی فاصلے پر ہونے کے باعث ہندوؤں کو یہاں آنے اور مردے کی آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے ،حکومت کی جانب سے ہندو کمیونٹی کے مندروں کی بحالی کے لیے سالانہ فنڈز جاری کیے جائیں تو ان کے مندروں کی بحالی بارے سوچا جا سکتا ہے۔

نوٹ:یہ رپورٹ مختلف لوگوں کی ذاتی معلومات،خیالات پر مبنی ہے،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ایڈیٹر