ریکوڈک۔۔اتحادی جماعتیں آمنے سامنے 

Dec 14, 2022 | 23:20:PM
رقبے، آبادی، چھوٹے صوبہ بلوچستان، بدقسمتی،
کیپشن: ریکوڈک منصوبہ، اتحادی جماعتیں، فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

تحریر (عثمان خان)رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبہ بلوچستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ مقتدر قوتوں نے ہمیشہ یہاں کے لوگوں کو پسماندہ اور محرمیوں میں ہی رکھا ہے گو کہ یہاں کا جابرانہ اور آمرانہ سرداری نظام بھی ایک زمانے تک ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہا۔بلوچستان کے بیشتر علاقے بنیادی سہولیات سے محروم اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فرسودہ نظام ،غربت ،سیاسی سماجی اور معاشرتی حقوق کی محرومی نے انتہا پسندی کو پروان چڑھایا، بلوچستان کی سرزمین معدنیات سے مالا مال جبکہ اس کا گودار پورٹ بھی دنیا بھر میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔اسی زمین پر ریکوڈک بھی موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا پانچواں بڑا سونے کا ذخیرہ ہے۔
مقامی زبان میں ریکوڈک کا مطلب ہے کہ ریت سے بھری چوٹی یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے جو اب خاموش ہے اس ریت سے بھرے پہاڑ اور ٹیلوں کے 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہے بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کی ایک وجہ یہ علاقہ بھی بتایا جاتا ہے اس کان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیک وقت دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے والی کمپنی کام کررہی ہے جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ناقدین کا خیال ہے کہ ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکی شراکتوں کو بیچا گیا ہے۔
ریکوڈک کا معاملہ وقتاً فوقتاً عالمی ،ملکی اور صوبائی منظر نامے پر اٹھتا رہتا ہے آج بھی وفاقی دارلحکومت میں اس وقت بھونچال آیا جب اٹھارویں ترمیم کی خالق پیپلز پارٹی نے اپنی ہی بنائی ہوئی اٹھارویں ترمیم کو روند ڈالا اس سے قبل بلوچستان اسمبلی میں ڈرامائی انداز میں بل پاس کیا گیا پھر سندھ اسمبلی نے اور اب یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے بھی پاس ہوگیا جسکی مخالفت میں بلوچستان میں جے یو آئی اور بی این پی مینگل نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور وزیر اعلی بلوچستان پر شدید تنقید کی کہ کس طرح ایک روایتی ان کیمرہ بریفننگ کا ڈھونگ رچاکر اور ایجنڈے میں لائے بغیر کسی بھی جرح کے بغیر بل کو پاس کیا گیا اسی طرح سینیٹ میں جمعیت علما اسلام نے بل کی مخالفت کی اور سینیٹ اجلاس کے بعد پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالغفورحیدری نے کہا کہ وفاق کو کسی صورت بلوچستان کے حقوق ہڑپ نہیں کرنے دینگے اس بل کے منظور ہونے کا مطلب آئین وقانون کو چیلنج کرنا ہے انہوں نے واضح کیا کہ اگر حکومت نے بل واپس نہیں لیا تو ہم اپنے اس اتحاد پرغور کرینگے جبکہ قومی اسمبلی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بھرپور احتجاج کیا اور فلور پر مولانا عبد الواسع نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو بل وزیر قانون نے پیش کیا ہے میں اس کو سیاہ ترین قانون سمجھتا ہوں میں اور میری جماعت اس بل کی مخالفت کرتی ہے۔
اسی طرح بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی اس بل کی بھرپور مخالفت کی اور جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پہنچے اور حکومتی بدنیتی کا گلہ کیا کہ کس طرح اتحادیوں کو اس اہم قانون سازی میں نظر انداز کیا جارہا ہے جس وقت اسمبلی میں یہ بل پیش کیا جارہا تھا پس پردہ اتحادیوں سے مذاکرات کی بھی کوششیں جاری تھی چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزیر خزانہ، وزیر قانون کی قیادت میں چار گھنٹے تک جے یوآئی اور بی این پی اراکین کو مناتے رہے اس دوران اختر مینگل ، مولانا عبدالواسع نے غیر ملکی سرمایہ کاری تحفظ وفروغ بل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا مگر مذاکرات ناکام رہے اور یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے جمعیت علما اسلام ،عوامی نیشنل پارٹی ،نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کی مخالفت کے باوجود منظور کرلیا گیا۔
اٹھارویں ترمیم کے بانی پیپلز پارٹی ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ انہوں نے صوبوں کو حقوق دئیے لیکن اس اہم موقع پر پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کو ڈیسک بجاتے دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ کس طرح یہ جماعت اپنے آپ کو اٹھارویں ترمیم کا خالق کہتی ہے۔
پاکستان کی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8اپریل 2010 کو قومی اسمبلی نے پاس کی اس وقت آصف علی زرداری پاکستان کے مضبوط صدر تھے گو کہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایکزیکٹیو اختیارات پارلیمان کو دے دئیے تھے چونکہ وزیر اعظم قائد ایوان ہوتا ہے لہذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس آئے۔اس ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے اس میں بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں دیا گیا ہے۔ قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا ہے اس میں سب سے اہم معاہدہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ اب ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔
کیا حکومت اپنے تدبیر سے مزاکرات کرکے معاملات طے کریگی کیونکہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم حکومتی وزرا نے وزیراعظم کے سامنے شکوہ کیا کہ کس طرح انہیں اس اہم قانون سازی سے دور رکھا گیا ہے ریکوڈک کے معاملہ پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا اس بل کے مخالف ہے، اتحادی وزرااحتجاج کے بعد جےیوآئی اور بے این پی مینگل کا بل میں ترامیم تک کابینہ اجلاس سے واک آوٹ کرنے کا فیصلہ کی
وفاقی وزرا جے یوآئی اور بی این پی کو واک آوٹ کے بعد مناتے رہے، دونوں جماعتوں کے تحفظات درست ہے جلد ترامیم شامل کی جائے گی، حکومت نے یقین دہانی کرائی تاہم جےیوآئی اور بی این پی کا ترامیم شامل ہونے تک کابینہ کے اجلاسوں سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، دوسری جانب وزیراعظم نے اتحادی ارکان کے تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی دونوں جماعتوں کے ساتھ بات چیت کر کے منائے گی ، کمیٹی ریکوڈک کے حوالے سے ارکان کے تحفظات دور کرے گی ، کمیٹی میں وزیر قانون، وزیر سیاسی امور اور دیگر وفاقی وزرا شامل ہے۔
ایسے وقت میں جب مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔حکومت کا اس اہم معاملے میں اتحادی جماعتوں کو نظرانداز کرنا کس حد تک درست ہوگا اور کیا حکومت اس وقت اتحادیوں کی ناراضگی مول لے سکتی ہے ؟ اس سب سے اہم یہ کہ حکومت کی بڑی جماعتیں آہستہ آہستہ اپنے پرانے ڈگر پر چل پڑی ہیں اور ان اصولوں کو نظرانداز کردیا ہے جس کے لئے ساڑھے تین سال جد وجہد کی۔عوامی مفاد کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے صوبائی خودمختاری کو زیر زمین دفن کردیا گیا ،سچ کہا گیا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل میں اور آنکھوں میں شرم نہیں ہوتی۔