12 سال بعدذوالفقار بھٹو پھانسی کیس کی سماعت، سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا:جسٹس منصور علی شاہ

Dec 12, 2023 | 12:14:PM
12 سال بعدذوالفقار بھٹو پھانسی کیس کی سماعت، سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا:جسٹس منصور علی شاہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے  9رکنی لارجر بنچ  نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کیخلاف صدارتی ریفرنس پرسماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس: عدالت نے 9 معاونین مقرر کردیے، سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔

تفصیلات کے مطابق اپریل 2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس پر 12 سال  بعد سماعت کا آغاز ہوا جس کی لائیو نشریات کیلئے چیئر مین پیپلز پارٹی   بلاول بھٹو  نے درخواست دی تھی، سماعت کے دوران بلاول بھٹو کے ہمراہ آصف علی زرداری  بھی سپریم کورٹ  میں موجود تھے،چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجرمیں جسٹس سردارطارق ، جسٹس منصور،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر،جسٹس حسن اظہراور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔۔۔۔۔۔۔

جاری تحریری حکم نامہ
چیف جسٹس نے سماعت جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آج کی سماعت کاحکم نامہ لکھوایا۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکےجواب لیا جائے۔عدالت نے آئینی اورفوجداری معاملات کے 9 ماہرین کومعاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکمنامے کے مطابق آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کردیا گیا، آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔ 

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پرمعاونت کرسکتے ہیں، جسٹس (ر)منظورملک عدالتی معاون مقرر کئے جاتے ہیں۔ خواجہ حارث بطورایڈوکیٹ جنرل پنجاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، انہیں سلمان صفدر، رضاربانی، خالدجاوید ، زاہد ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کیا جاتا ہے،عدالت نے مخدوم علی خان اورعلی احمد کرد کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا۔

صدارتی ریفرنس سابق صدرآصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جو گزشتہ 12 سال سے زیر التوا ہے، پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے کی،صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہو چکیں ہیں ،ذوالفقار بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی، جبکہ آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی.

 عدالت نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھے اور  چیف جسٹس آف پاکستان  قاضی فائز نے کہا کہ  سپریم کورٹ کی کاروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے،اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کاروائی لائیو ہوگی،چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے  مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ  آپکی درخواست آنے سے پہلے ہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا،یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟  

 اٹارنی جنرل اوربلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نےکہا کہ پہلےیہ دیکھ لیتے ہیں کون کس کی نمائندگی کرتاہے،اس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میں  بلاول بھٹو  کی نمائندگی کروں گا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پروضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتے ہیں اور بحثیت وکیل سیاسی جماعت بھی،صدارتی ریفرنس اب بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں کیا گیا، ایک سینئرممبربینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، 2 اور ججزنے ذاتی وجوہات پر معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ اس ریفرنس کو فائل کیے جانے کے بعد کتنےصدور آئے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کے بعد 2 صدورآچکے ہیں،یہ ریفرنس صدر زرداری نے بھیجا تھا،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدرنے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس پہلے سماعت کیلئے مقرر نہ کےجانے پرافسوس کا اظہارکرتا ہوں۔

 چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ  ذولفقار علی بھٹو کو سزا کس ہائیکورٹ نے سنائی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ  لاہور ہائیکورٹ نے ذولفقار بھٹو سزا سنائی تھی،جسٹس نسیم حسن شاہ نے خود ٹی وی پر  تسلیم کیا تھا کہ ان پر فیصلے کیلئے دباو تھا۔

چیف جسٹس نےمزید پوچھا کہ کس ٹی وی پر نسیم حسن شاہ نے بات کی تھی،جس پر جنرل اٹارنی فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ جیو ٹی وی پر افتخار احمد کے شو میں نسیم حسن شاہ نے گفتگو کی تھی،چیف جسٹس نے پوچھا کہ  کیا افتخار احمد ابھی زندہ ہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ  جی بالکل افتخار احمد زندہ ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ  جسٹس نسیم حسن شاہ نے یہ بتایا کہ کس نے ان پر دباو ڈالا تھا؟فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ  اس وقت مارشل لا تھا تو مارشل لا کی بات کی گئی تھی،دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا  تھا کہ مارشل لا والوں کی بات ماننا پڑتی ہے، نسیم حسن شاہ نے دوسرا انٹرویو کسی انجان کو دیا تھا۔اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھ دیئے۔

اعتزاز احسن نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی سے  ریفرنس میں معاونت کرنے سے  معذرت کرلی

اعتزاز احسن نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی سے  ریفرنس میں معاونت کرنے سے  معذرت کرلی،معاون وکیل احمد علی کرد نے کہا کہ مجھے عدالت نے عدالتی معاون مقرر کیا تھا،ریفرنس میں عدالت کی معاونت کروں گا۔سعد ہاشمی نے کہا کہ مخدوم علی خان بھی عدالت کی معاونت کرینگے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے

 جسٹس منصور شاہ  نے کہاکہ  آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں، جس پر  اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھ کر سنایا،جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل کےدوران بینچ پراعتراض کیے جانے سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی،  2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کیلئے درخواست دائر کی گئی۔
احمد رضا قصوری نے نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار میں انٹرویو کا حوالہ دیا،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ  کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی جنہوں نے ریفرنس پر اٹھائے گئے قانونی نکات بھی پڑھ دیے، چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت آصف زرداری کے ریفرنس پر بابراعوان نے نمائندگی کی تھی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا بابراعوان کمرہ عدالت میں موجود ہیں؟ جس ہر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بابراعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہوگیا تھا، وہ اس وقت کی حکومت کی نمائندگی کررہےتھے۔اس دوران مدعی مقدمہ احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ پہلے ہمیں اٹارنی جنرل کوسن لینے دیں۔جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متفرق درخواست کے ساتھ چیزیں آئی تھیں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اب تک کیا احکامات دیئے گئے ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ  عدالت نے پنجاب پولیس سے بھٹو ریفرنس کا ریکارڈ منگوایا تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ  کوئی بتائے گا عدالتی حکم میں توبہ کا تذکرہ کیوں ہوا؟کیا فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟کیا پولیس سے ذوالفقار بھٹو کیس کا اصل ریکارڈ ملا ؟ ارٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل ریکارڈ نہیں ملا،کیس کے ریکارڈ سے متعلق تین بنڈلز آئے تھے، احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس چیز کا ماہر نہیں ہوں عدالت کسی عالم کو بلائے۔
جسٹس منصور شاہ نےسوال کیا  کہ  کیا جب یہ سارا کیس چلا ملک میں آئین موجود تھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت ملک میں مارشل لاء تھا۔چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ  کیس میں ریکارڈ موصول نہ ہونےکی شکایات دائر ہوئی تھیں ،عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا،جو ٹربیونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا،وکیل فاروق نائیک  نے جواب دیا کہ ٹربیونل نے دیکھنا تھا کہ مقدمات درست تھے یا نہیں،ٹربیونل نے ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا،چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ  آپ چاہتے ہیں ریفرنس کبھی نہ سنا جائے ،اعتراض اٹھاتے رہیں۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ  سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہو چکا ہے،عدالت کو بتائیں کیس میں قانونی سوال کیا ہے، فیصلہ برا تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جا سکتا،یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے  فاروق نائیک سے کہا کہ  آپ عدالت کو کوئی قانونی حوالہ تو دیں، آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی،اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے،عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہو کر ختم ہو چکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ  بھٹو کیس عوامی اہمیت کا حامل کیس تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ  جو بھی کیس ہو عدالت قانونی سوالات کے بغیر فیصلہ کیسے کر سکتی ہے؟عدالت کس قانون کے تحت یہ ریفرنس چلائے؟انہوں نے کہا کہ   ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے،ایسا کرنا ہے تو درخواست دے دیں ،کس کس کو احکامات دیئے جائیں۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوسری نظرثانی کی سپریم کورٹ میں کوئی گنجائش نہیں،کیا کل کوئی فریق آکر پرانا مقدمہ کھلوا سکتا ہے،یہ بہت اہم سوال ہے،کیا صدر ریفرنس بھیج سکتے ہیں تمام فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے، پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے،اس کیس میں فوجداری مقدمات کے ماہرین کو شامل کریں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ٖفیصلہ سناتے ہوئے  کہا کہ  کیس  کی سماعت  سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کرنے کا فیصلہ سنادیا،   کیس دوبارہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد لگائیں گے۔