مسلمان "صادق" اور "امین" کے لفظ آخری نبیؐ کے سوا کسی کیلئے استعمال کر ہی نہیں سکتا، چیف جسٹس

Jan 02, 2024 | 15:48:PM
 مسلمان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز )تاحیات نااہلی کیخلاف کیس کی سماعت  کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ  ایک مسلمان "صادق" اور "امین" کے الفاظ آخری نبی حضرت محمدﷺکے سوا کسی کے لیے استعمال کر ہی نہیں سکتا۔ 

تفصیلات کے مطابق  سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیخلاف کیس کی اوپن سماعت کر رہا ہے ، سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ  عدالت کسی شخص کےخلاف ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ کوئی 20سال بعد سدھر کر عالم بن جائے تو کیا اس کا کردار اچھا ہوگا؟ اگر پہلے کسی نے ملک مخالف تقریر کردی تو وہ آج بھی انتخابات نہیں لڑ سکتا؟۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 18ویں آئینی ترمیم میں ڈیکلریشن کا مقصد آر او کے فیصلے پر اپیل کا حق دینا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے  پوچھا کہ کوئی شخص توبہ کرکے عالم یا حافظ بن جائے تو برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟ آرٹیکل 63ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریےکی خلاف ورزی پر نااہلی 5سال ہے، اگر فوجداری مقدمات میں عدالت کسی شخص کو جھوٹا قرار دے کہ اس نے عدالت کو گمراہ کیا ، کیا اس پر آرٹیکل 62 1 ایف لگے گا؟ کل وہ شخص انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا، کوئی اعتراض کردے کہ تمہیں عدالت نے جھوٹا قرار دیا ۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے  کہا کہ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت سول کیسز کے ماہر ہیں ان سے رائے لیتے ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ شہزاد شوکت صاحب آپ قانون کی حمایت کرہے ہیں یا مخالفت ؟صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے جواب میں کہا کہ میں قانون کی حمایت کرتا ہوں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وہ کون ہے جو قانون کی مخالفت کررہا ؟، ہم سننا چاہتے ہیں ،عثمان کریم نے کہا کہ جب تک سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ موجود ہے قانون نہیں آسکتا ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تاحیات نااہلی کے حق میں ہیں یا مخالفت میں ؟ عثمان کریم نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی کے تب تک حق میں ہوں جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ 

چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا کوئی شخص حلفیہ کہہ سکتا ہے وہ اچھے کردار کا مالک ہے؟ اگر کوئی شخص توبہ کر کے عالم یا حافظ بن جائے تو بھی برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں عدالت سے ڈکلئیریشن کا مقصد ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آرٹیکل 62 ون ڈی پڑھیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ڈی کہتا ہے اگر کوئی شخص اچھے کردار کا مالک ہو اور اسلامی احکامات کی خلاف ورزی نا کرے تو اہل ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ اچھا کردار کیا ہوتا ہے؟ اگر اچھے کردار والا اصراف نہیں کرسکتا تو پھر وضو میں پانی ضائع کرنے والا بھی نااہل ہے۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ کیونکہ جو کردار کے بارے میں کہا گیا کہ اسراف کرنے والا نہ ہو، ہم روز بجلی، پانی کا اسراف کرتے ہیں، اس حساب سے تو وضو کے دوران پانی ضائع کرنے والا بھی نااہل ہے،  ایک مسلمان "صادق" اور "امین" کے لفظ آخری نبی ﷺکے سوا کسی کے لیے استعمال کر ہی نہیں سکتا، میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے جاؤں ، کوئی اعتراض کرے کہ یہ اچھے کردار کا نہیں تو مان لوں گا، ہم گنہگار ہیں تبھی کوئی مرتا ہے تو اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : جو اہلیت بیان کی گئی ، قائد اعظم ہوتے وہ بھی نااہل ہو جاتے، چیف جسٹس