پاکستان 2040 تک پانی کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہو جائے گا

تحریر:شکیلہ جلیل

Jan 16, 2023 | 21:19:PM
پینے کے پانی، مائیکرو بیالوجیکل، ٹی ڈی ایس، راولپنڈی،
کیپشن: تحریر، شکیلہ جلیل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پینے کے پانی میں مائیکروبیالوجیکل اور ٹی ڈی ایس کی زیادہ مقدارراولپنڈی پاکستان کےSPOT HOTعلاقوں میں شامل۔ صوبہ پنجاب کے پینے کے پانی میں جراثیم، آرسینک، فلورائیڈ، ٹی ڈی ایس اور نائٹریٹ کی نشان دہی۔ راولپنڈی میں پینے کے پانی سے حاصل کئے گئے نمونوں میں فیکل بیکٹیریا اور خاص طور پر ای کولی کی موجودگی انتہائی توجہ طلب ہے۔ ٹھوس اور عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سےزیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک ہو جائے گا۔ پانی کے استعمال، تحفظ اور ضائع کرنے کے حوالے سے کمیونٹی کے رویے میں تبدیلی لانے کے لیے بہت زیادہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کی لاپرواہی اور کوتاہی اپنی جگہ ،مگر ہماری عوام بھی اس کمی کوتاہی میں برابر کی شریک ہے ،پورا شہر پینے کے پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک کے اصولوں اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

 پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے ،اور صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر گزرتے وقت کیساتھ پوری دنیا کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے ، عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق دنیا بھر کے ممالک جن کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی شدیدقلت کا شکار ہو جائے گا۔اور اگر صورت حال ایسی ہی رہی اورکوئی ٹھوس اور عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک ہو جائے گا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف 2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی دستیاب مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹرز ہے، جس میں سے نوے فیصد زراعت، چار فیصد صنعت اور باقی چھ فیصد گھریلو استعمال کے لیے ہے۔ یعنی ڈھائی سو میں سے صرف 15 ارب کیوبک میٹر پانی گھریلو استعمال کے لیے دستیاب ہے۔ اگر ہم صرف گھریلو استعمال کے پانی کی بات کریں تو 23 کروڑ عوام میں سے 70 فیصد افراد کو صاف پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ 2016 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان 1990 میں واٹر سٹریس لائن تک پہنچ گیا تھا اور 2005 میں پانی کی قلت کی الئن عبور کرلی تھی۔عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹرہے جبکہ 2009 میں یہ دستیابی 1500 کیوبک میٹرتھی۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دستیابی 500 کیوبک میٹرتک پہنچ گئی تو ملک 2025 تک پانی کی قلت ایک خوفناک المیہ کی شکل اختیار کر لے گی ۔

 پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح راولپنڈی میں بھی پانی او ر خاص طور پر پینے کے پانی کی کمی بڑھتی جا رہی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو راولپنڈی میں پانی کی کمی کسی المیے کو بھی جنم دے سکتی ہے ،راولپنڈی میں پانی کی کمی کی وجوہات کیا ہیں اور زیر مین پانی کا لیول کیا ہے اس حوالے سے پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے تحت واسا سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2018 سے جون 2022تک راولپنڈی میں پانی کا لیول مختلف عالقوں میں مختلف گہرائی پر چل رہا ہے ،اس کی بنیادی وجہ زیر زمین چٹانوں کی مختلف تہہ مختلف زاویوں میں موجود ہیں او ریہ لیول 300سے 400فٹ کے درمیان ان چٹانوں پر واقع ہے ۔موسمیاتی تبدیلیونکی وجہ سے اس زیر زمین پانی کے لیول میں ردو بدل ہو جا تا ہے جیسا کہ زیادہ بارشوں کی صورت میں اسکا لیول زمین کی سطح کی طرف اوپر آجاتا ہے ،اور کم بارشوں و زیادہ پانی نکالنے کی صورت میں اس میں بتدریج کمی ہوجاتی ہے ۔راولپنڈی میں پانی کی فراہمی بنیادی طور پر زیر زمین پانی کے ذرائع پر منحصر ہے راولپنڈی میں480 ٹیوب ویلز ہیں۔رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت واسا سے جب سوال پوچھا گیا کہ راولپنڈی کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کی پائپ لائنز کی صفائی آخری بار کب ہو ئی اور کتنی لاگت آئی تو ان کاجواب موصول ہوا کہ راولپنڈی کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے دوران پائپ لائنز کی صفائی کی ضرورت پیش نہیں آتی ہاں اگر کسی لیکج یا کسی اور وجہ سے گندہ پانی آنے کی شکایت آتی ہے تو واسا اپنی لیبارٹری سے پانی کے نمونے کو چیک کرنے کے بعد اس لائن کو تبدیل کر دیتے ہیں ،جبکہ ٹریٹمنٹ کیلئے راول ڈیم اور خان پور ڈیم کے پانی کیلئے بڑے ٹریٹمنٹ پلانٹس  نصب ہیں،جبکہ شہر بھر میں 128مزید چھوٹے فلٹریشن پلانٹس ٹیوب ویل کے پاس نصب ہیں،جو زیر زمین پانی کو صاف کرکے پینے کیلئے صاف پانی مہیا کرتے ہیں ۔ ڈسٹری بیوشن لائنوں کا خرچہ چھوڑ کر ایک ٹیوب ویل پر 85الکھ کے قریب خرچہ آتا ہے ،اسی طرح راولپنڈی میں120کے قریب فلٹریشن پلانٹ موجود ہیں ۔پہلی دفعہ پرویز الہی کے پہلے دور میں فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کی گئی تھی اس وقت 35کے قریب فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے تھے ۔راولپنڈی کی 46یونین کونسلوں میں پانی کی کھپت 54ملین گیلن روزانہ کی ہے جس میں ْسے 23ملین گیلن راول ڈیم سے حاصل ہو تے ہیں،6ملین گیلن خان پورڈیم سے اور 9ملین گیلن راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ اور چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ کو دیا جا تا ہے حاالنکہ ان کا حصہ 15ملین بنتا ہے ،باقی کی پانی کی کمی ٹیوب ویلوں سے پوری کی جاتی ہے،ایم ای ایس اور حساس اداروں کو 11ملین گیلن چال جا تا ہے ۔ ایک سے ڈیڑھ فیصد پانی ضائع ہو جا تا ہے ۔اور اسکے ضائع ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پانی کی لائنیں چھلنی کی طرح ہیں ،ان سے ہر وقت پانی رستا رہتا ہے ۔پائپوں اور نلکوں کی مینٹیننس نہ ہونے کے برابر ہے ۔سالہاسال گزر جاتے ہیںلیکن مینٹیننس نہیں ہوتی ۔ وفاقی قانون برائے حصول معلومات ایکٹ2017کے ذریعے پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سال 2022کے دوران اسالم آباد میں پانی کی اوسط گہرائی 32.52میٹر ہے اور یہ معلومات چار مانیٹرنگ سائٹس سے حاصل کردہ رپورٹ کے مطابق ہیں یہ سائٹس حال ہی میں سی ڈی اے نے قائم کی ہیں ۔تاہم اسالم آباد میں زیر زمین پانی کی دستیابی اور گہرائی ایک دوسرے سے مختلف ہے کہیں پانی کا لیول زیادہ ہے تو کہیں کم گہرائی واال اور کہیں زیادہ گہرائی واال ہے ۔راولپنڈی اسلام آباد میں پانی کی کمی اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہو ئے سی ڈی اے کی منظوری PC-1 نے اسلام آباد میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کے پی سی ون کے تحت زمینی پانی کی نگرانی کیلئے 10مقامات کا انتخاب کیا گیا PC-1 دی ہے اس ریسرچ آن واٹر ریسورسز سائٹ کی ہے ،اس منصوبے کے تحت پاکستان کونسل آف واٹر ذیزائننگ کے حوالے تکنیکی مدد فراہم کررہا ہے ،اسلام آباد میں سطح زمین کے مختلف عالقوں کےجیالوجیکل سروے کے مطابق اسالم آباد میں کہیں زمین ہموار ہے ،کہیں پتھریلی اور کہیں پہاڑی علاقہ اور کہیں پر گہرائی ہے ،جس کی وجہ سے اسالم آباد میں زیر زمین پانی کی شرح ایک جیسی نہیں ہے ،مختلف علاقوں میں پانی کی سطح مختلف ہے ،حالیہ پیمائش کے مطابق ایف نائن پارک میں 3.83میٹر ،کچنار پارک میں 6.1میٹر آغاشاہی روڈ کے علاقے میں 3.23میٹر اور پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹرریسورسزکے ہیڈ آفس اسالم آباد کے گرد و نواح میں 3.59میٹر تک واٹر ٹیبل میں کمی  ریکارڈ کی گئی ہے پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کی ہی ایک اور رپورٹ ڈرنکنگ

واٹرکوالٹی ان پاکستان کرنٹ سٹیٹس اینڈ چیلنجز 2021 کے مطابق ملک کی 84 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے،جبکہ ملک کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ ہے۔ ملک میں پینے کے پانی کے تمام ذرائع کا اوسطاً 61 فیصد پانی جراثیم سے آلودہ ہوچکا ہے۔یوں تو پورے پاکستان میں ہی عوام پینے کے صاف پانی کی کمی کا شکار ہیں ،لیکن اگر خاص طور پرراولپنڈی کی بات کی جا ئے تو راولپنڈی میں پینے کے صاف پانی کی کمی ایک بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ،اور حاالت ایسے بنتے جا رہے ہیں کہ کہیں مستقبل قریب میں راولپنڈی کی عوام کیلئے صاف پانی کی فراہمی ایک خواب بن جا ئے اوروہ پانی کی بوند بوند کوترس جائیں راولپنڈی میں اب بھی جو پینے کاپانی ہے وہ صاف نہیں ہے بلکہ صرف عوام کی خام خیالی ہے کہ وہ صاف پانی پیتے ہیں ۔راولپنڈی میں پینے کے صاف پانی کی کمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ راولپنڈی میں نالوں کی بھرمار ہے اور کوئی ایسا نالہ نہیں جہاں سے پانی کا پائپ نہ گزر رہا ہو ،کوئی ایسا پل نہیں جس کے نیچے سے پانی کے پائپ نہ گزر رہے ہو ں ،ان پائپوں میں اتنی لیکج ہے کہ سیوریج کا گندہ پانی صاف پانی سے مکس ہو رہا ہوتا ہے ،جو کہ انسانی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے ،ہر سال  ہزاروں افراد اسہال،ہیضہ،اور دیگر موذی امراض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو  بیٹھتے ہیں۔ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل مریضوں میں سے چالیس سے ساٹھ فیصد مختلف بیماریوں کا شکار رہتے ہیں ریسرچ کونسل کی رپورٹ کے مطابق پانی میں جراثیم کی تعداد واٹر سپلائی لائن کے خشک ہو جانے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے، اگر کسی پائپ الئن میں ایک بیکٹریا موجود ہو، اس میں ایک ہفتہ پانی نہ آئے تو ان کی تعداد اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح زیر زمین پانی کے وہ ذخائر جو کسی جوہڑ یا آلودہ پانی کے کسی اور ذخیرے کے پاس موجود ہوں، وہ آبادی میں پیٹ کے امراض کا باعث بنتے ہیں کیونکہ اس سے زیرزمین پانی بھی متاثر ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز 2001 کی رپورٹ ڈرنکنگ واٹر کولٹی ان پاکستان کرنت سٹیٹس اینڈ چیلنجز کے مطابق پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے 77ملک بھر میں پینے کے پانی کے معیار کو جانچنے کا کام کر رہا ہے۔ 21-2020 میں کونسل نے ملک کے 29 بڑے شہروں کے پینے کے پانی کے مختلف ذرائع سے نمونہ جات لے کر ٹیسٹ کیے تو معلوم ہوا ہے کہ ملک کا 61 فیصد پانی جراثیم زدہ اور پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے وفاقی دارالحکومت اسالم آباد اور پنجاب کے شہروں بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، قصور الہور ملتان، راولپنڈی، سرگودھا شیخوپورہ، خیبر پختونخوا کے شہروں ایبٹ آباد، مینگورہ، مردان، پشاور، بلوچستان کے شہروں خضدار، لوراالائی، کوئٹہ، سندھ کے بڑے شہروں حیدر آباد، کراچی، بدین، سکھر، میرپور خاص، ٹنڈو الہ یار، بے نظیر آباد جبکہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلستان کے دارالحکومتوں مظفرآباد اور گلگت سے پانی کے نمونہ جات لے کر ان کا تجزیہ کیا۔ ریسرچ کے مطابق ملک کے 29 بڑے شہروں سے پینے کے پانی کے 435 نمونہ جات لے کر انہیں قومی معیار کے لیے طے شدہ پیمانے پر جانچا گیا تو ان میں 168 یعنی 39 فیصد نمونہ جات پینے کے لیے محفوظ پائے گئے۔ دوسری جانب 267 نمونہ جات یعنی

61 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں پایا گیا۔جن بڑے شہروں سے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں وفاقی دارالحکومت اسلام  آباد سے 24 نمونے لیے گئے جن میں 17 محفوظ جبکہ سات غیرمحفوظ پائے گئے۔ صوبہ پنجاب میں 51 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔فیصل آباد کا 59 فیصد پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ پایا گیا جہاں سے 22 میں سے 13 نمونہ جات میں جراثیم پائے گئے۔ سرگودھا کے 83 فیصد نمونہ جات میں جراثیم اور صحت کے لیے نقصان دہ دھاتیں پائی گئیں۔ لاہور کا 31 فیصد پانی پینے کے فیصد پانی فیصد اور شیخوپورہ کا 50 قابل نہیں پایا گیا۔ اسی طرح گوجرانوالہ کا 50 پینے کے لحاظ سے غیرمحفوظ پایا گیا ہے۔صوبہ پنجاب کے پینے کے پانی میں جراثیم، آرسینک، فلورائیڈ، ٹی ڈی ایس اور نائٹریٹ کی نشان دہی ہوئی ہے۔راولپنڈی کے پانی مینبھی دھاتی زرات کی موجودگی کے ساتھ ساتھ 31 فیصد نائٹریٹ اور 23فیصد کے قریب آئرن کی مقدار پائی گئی ہے ۔راولپنڈی سے حاصل کئے گئے نمونوں میں فیکل کی موجودگی انتہائی توجہ E-COLI بیکٹیریا کی موجودگی اور خاص طور پر ای کولی طلب ہے ،ای کولی ڈائیریا ،ہیپاٹائٹس اے ،گلے کی بیماریوں اور آنتوں کی بیماریوں کا اوربیکٹیریل لوجیکل کی مقدار بہت TDS سبب بنتا ہے ۔اسی طرح راولپنڈی کے پانی میں کی پانی میں زیادہ مقدار کی TDS زیادہ ہے ۔رپورٹ کے مطابق مائیکرو بیالوجیکل اور عالقوں میں شامل کیا SPOT HOT وجہ سے 21-2020مینراولپنڈی کو پاکستان کے گیا تھا ۔اور ان عالقوں میں کیمیکل ذرائع کلورین کے استعمال یا پھر واٹر فلٹریشن اور

دسٹالیشن کے زریعے پانی کی ٹریٹمنٹ کی سفارش کی گئی ۔ واسا شہر میں پانی کی الئنیں مکمل تبدیل کرے،سیاسی و سماجی ورکرمحمد ظہیر اعوان راولپنڈی میں پینے کے پانی کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،پورے راولپنڈی میں بغیر  موٹر چلائے پانی گھروں میں نہیں آتا اور دوسری طرف پانی کی جو پائپ لائن ہے ان میں جگہ جگہ سوراخ ہیں ،پانی کی کریک الئنیں ڈالی گئی ہیں ،ان لائنوں کے جوڑ بالکل درست نہیں،اور اس کے درست نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لائنیں عام مزدوروں نے ڈالی ہیں ،پروفیشنل مزدوروں نے ڈالی ہوں تو انہیں اندازہ ہو کہ پانی کے جوڑ کیسے ڈالنے ہیں ،تاکہ پانی ضائع نہ ہو،عام مزدوروں سے پائپ کی فٹنگ ہی درست نہیں جس سے پانی مسلسل نہ صرف ضائع ہو تا رہتا ہے ،اور نہ صرف ضائع ہوتا ہے بلکہ سیوریج کی لائنوں سے رسنے واال گندہ پانی پینے والے پانی کو گندہ کر رہا ہے ،پورے شہر میں پینے کے صاف پانی کی پائپ لائنیں نالیوں سے گزر رہی ہیں ۔لوگوں کے گھروں میں جو پینے کا پانی نلکوں میں جا رہا ہے وہ گندہ پانی ہے ،صاف پانی کسی شہری کو دستیاب نہیں۔واسا کے اکثر والز زمین کے اند رہیں ۔جب بھی پانی کھوال جا تا ہے تو وہ گھڑا پانی سے بھر جا تا ہے ،جس سے گندہ پانی اس میں مکس ہوتا جا تا ہے ۔پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے ضروری ہے کہ واسا شہر میں پانی کی لائنیں مکمل تبدیل کرے اور اور گھروں کے اندر تک پوری پائپ لائنیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ لائنوں کے جوڑ سے پانی رسنے اور پائپوں میں مٹی جانے سے گھروں میں ٹینکیاں مٹی سے بھری ہو تی ہیں اور یوں یہ صاف پانی پینے کیلئے صاف نہیں رہتا بلکہ مضرصحت ہو جا تا ہے ۔اسی طرح پورے شہر میں لگائے گئے فلٹریشن پلانٹ میں سے آدھے سے زیادہ پلانٹ بند پڑے ہیں حالانکہ ایک فلٹر پلانٹ پر 15سے 18لاکھ خرچہ آتا ہے لیکن مینٹیننس نہ ہونے کے برابر ہے ،جوورکنگ حالت میں ہیں 90دن کے اندر ان کے کارٹیج تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہوتی ہے ،لیکن یہاں سالوں گزرنے کے باوجود کارٹیج کی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ 

مومی سلیم (انوائرمنٹل ایکسپرٹ) راولپنڈی میں پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ بورنگ ہے ،لوگ پینے کے پانی کے حصول کیلئے جگہ جگہ بورنگ کیے جا رہے ہیں جس سے پانی نہ صرف ضائع ہوتا ہے بلکہ زیرمین پانی کی سطح کم ہو تی جارہی ہے ۔ راولپنڈی میں پانی کی تقسیم کا نیٹ ورک یونی ٹیوب ویل یا ملٹی ٹیوب ویل نیٹ ورک کا مجموعہ ہے جو زیادہ تر پانی کے خود مختار ذریعہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ سطحی پانی کو بھی اسی نیٹ ورک کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے یا اس کا اپنا کمانڈ ایریا ہوتا ہے۔ صحیح ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کا پتہ لگانے کے لیے ہائیڈرولک تجزیہ کے لیے کوئی ڈرائنگ یا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جس کے نتیجے میں کچھ عالقوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جبکہ دیگر کو اضافی سپالئی ہے۔ لوگ اس مانگ پر قابو پانے کے لیے سکشن پمپ استعمال کر رہے ہیں جو آلودگی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ راولپنڈی میں ترقیاتی کام بھی بہت زیادہ ہورہے ہیں،ساری زمین کنکریٹ کی ہے بارش کا پانی بھی زمین میں جذب نہیں ہوتا ،جس سے بارش کا پانی ضائع ہوتا رہتا ہے ،اور یہی پانی سیالب کی صورت میں بھی تباہی کا سبب بنتا ہے ،پھر درختوں کی کمی کی وجہ سے بھی ماحول میں نمی کم ہو تی جا رہی ہے ،مسلسل درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے ارو جہاندرخت لگے بھی ہیں وہاں اس کے سائیڈز سارے کنکریٹ کے ہیں،جس سے درخت کی ا فادیت بھی کم ہو جاتی ہے ، عبدالحق اسسٹنٹ ڈائریکٹرواٹر کوالٹی واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا)واسا کے سروس ایریا میں پینے کے پانی کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے کلورینیشن کی جاتی ہے تاکہ آلودگی کے امکانات کو ختم کیا جا سکے۔ واسا کی طرف سے پانی کے کیمیائی اور جراثیمی معائنہ کے لیے پانی کے معیار کی باقاعدگی سے اپنی لیبارٹری میں نگرانی کی جاتی ہے۔ کسی بھی آلودگی کی نشاندہیہونے پر اسے فلشنگ، کلورینیشن اور جاتی ڈسٹری بیوشن سسٹم میں مثبت دبائو کو برقرار رکھنے کیلئے کوششیں کی ہیں۔خراب پائپوں کی بروقت تبدیلی کو یقینی بنایا جا تا ہے ۔راولپنڈی کے پانی میں دھاتوں اور بیکٹیرا کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہو ئے پانی کے معیار کو بہتر اور صاف رکھنے کیلئے باقاعدہ طور پر کلورینیشن کی جا تی ہے ۔تاکہ پانی انسانی صحت کیلئے نقصان دہ نہ ہو ،واسا اپنے کم وسائل کے باوجود راولپنڈی کی عوام کو پانی کی فراہمی کیلئے ہر وقت مصروف عمل رہتا ہے ۔

:خالصہ پانی کی کمی کوئی ایک دن کا مسئلہ نہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو صاف پانی کی کمی ایک گھمبیر صورتحال اختیار کر لے گی ۔پاکستان میں برسر اقتدار حکومتیں اگر پانی کی منصفانہ تقسیم اور آبی ذخائر کے تحفظ کو یقینی بناتیں تو پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا تھا مگر حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کے باعث آج ملک پانی کی قلت سے دوچار ہے،اس  وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں زیر زمین صاف پانی کی مقدار 50ملین ایکڑ فٹ ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں صاف پانی کی فراہمی بالشبہ ایک مسئلہ ہے ۔پانی کی قلت سے نمٹنا بے شک ایک بڑا چیلنج ہے مگر بروقت منصوبہ بندی اس مسئلے کو ختم کرسکتی ہے ۔ ہمیں نئے ڈیموں اور آبپاشی کے نظام تک بہتر رسائی کی ضرورت ہے۔ہمیں اب پانی کو ریسائیکل کرنا شروع کر دینا چاہئے۔ پاکستان کو جہاناہلل پاک نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت سمندر بھی ہے اور پانی کا ایک اور بڑا ذریعہ سمندر ہے، ٹریٹمنٹ کے بعد ہم سمندر کے پانی کو پینے اور استعمال کے  قابل بنا سکتے ہیں مگر اب تک ایک بھی ایسا پالنٹ نہیں ہے جو اس کو قابل استعمال بنا سکے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ راولپنڈی اسالم آباد کی انتظامیہ کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ پانی انسان کی اہم ضرورت ہے۔ پانی سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہے ہم کھانا کھائے بنا تو ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں مگر پانی کے بغیر چند روز ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔حکومت اب اس بات کو یقینی بنائے کہ آنیوالے برسوں میں ہر پاکستانی کو پانی میسر ہوگا کیونکہ لوڈشیڈنگ جتنی بھی بڑی ہو، انسانی جان نہیں لیتی مگر پانی کی قلت چند روز میں ہی انسان کو مار دیتی ہے۔حکومتوں کی الپرواہی اور کوتاہی اپنی جگہ ،مگر ہماری عوام بھی اس کمی کوتاہی میں برابر کی شریک ہے ،پورا شہر پینے کے پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک کے اصولوں اور اخالقیات کی خالف ورزی کر رہا ہے۔ خاص طور پر پانی کی فراہمی کے شعبے کے لیے زمین کے استعمال کے ضوابط کو محدود کرنے کی ضرورت ہے جو باآلخر پانی کی پائیداری اور معیار کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ پانی کے استعمال، تحفظ اور ضائع کرنے کے حوالے سے کمیونٹی کے رویے میں تبدیلی النے کے لیے بہت زیادہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اور لوگوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ پانی اللہ پاک کی ایک نعمت ہے۔

 نوٹ : شکیلہ جلیل بنیادی طور پر فیچر رائٹرہیں اور تحقیقاتی صحافت کرتی ہیں وہ بنیادی طور پر موسماتی تبدیلی ،سیاحت ،ہیومن رائٹس اور پسماندہ کمیونیٹیز کے حوالے سے لکھتی ہیں ،ان کو سوشل میڈی اپر فالو کیا جا سکتا ہے ۔

جلیل شکیلہ Shakila.jalil01@gmail.com

twitter@shakilajalil FB@shakilajalil