اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابند ی ، پی ٹی آئی رہنماؤں،وکلاء کا کیا ردعمل ہے؟

Mar 14, 2024 | 09:17:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابند ی کا معاملہ خبروں میں ہے۔تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل جہاں اس متعلق عدالتوں میں مصروف رہی ،وہی حکومت اس بات کو ثابت کرنے میں جتی رہی کہ یہ پابندی سیاسی نہیں سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے لگائی گئی ۔ جب سے اڈ یالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی لگی اس کے بعد ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید اب دو ہفتوں کے اڈیالہ میں کیسز کی سماعت بھی نہ ہو ،لیکن اس کے برعکس آڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس کی سماعت میں استغاثہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے مزید 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے ہیں۔

پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ سماعت میں جیل حکام نے صرف 6 وکلا کو اندر جانے کی اجازت دی، جیل حکام نے صرف 6 صحافیوں کو کارروائی کور کرنے کی اجازت دی۔ میڈیا کو جیل سے 2 کلو میٹر دور کوریج کی اجازت دی گئی جبکہ جیل کے اندر اور اطراف کی سیکیورٹی بھی سخت کردی گئی تھی۔دوسری جانب آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اجازت کے خلاف اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اپیل پر سماعت کی، چیف کمشنر اسلام آباد کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے چیلنج کر رکھا ہے، انہوں نے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کسی سے ملاقات میں کیا مسئلہ ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ پریزن رولز 1998 کے تحت ملاقاتوں کے حوالے سے واضح ہیں۔پی ٹی آئی وکیل نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ سنگل رکنی بینچ نے 3 مختلف درخواستوں پر فیصلہ دیا ہے سرکاری وکیل نے دلائل دیے کہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ پریزن رولز کی خلاف ورزی ہے، پریزن رولز کے مطابق ملاقاتیں جیل مینوئل کی مطابق ہوتیں ہیں، جیل ملاقاتوں کے لئے رولز کے تحت مختلف اوقات کار مقرر کیے گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ رولز کے مطابق ملاقاتیں جیل نمائندہ کی نگرانی میں ہوگی، قانونی ٹیم کی ملاقات ہو یا کسی اور کی، اکیلے میں ملاقات کی اجازت نہیں، کسی بھی مجرم سے ملاقات جیل مینوئل کی مطابق ہوتیں ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے کس حصے سے اعتراض ہے؟سرکاری وکیل نے کہا کہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ ہی جیل مینوئل اور پریزن رولز کے خلاف ہیں، عدالت نے کہا کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو جرمانہ عائد کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو جرمانہ سے مسئلہ ہے؟ یہاں عمران احمد خان نیازی سے ملاقاتوں کی روزانہ کتنے درخواستیں آتی ہیں؟ ہم اس معاملے کو روٹین نہیں بنارہے، مگر جن کو یہاں سے اجازت ملتی ہے ان کو بھی نہیں ملنے دیا جارہا ہے۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت نے تو 6 افراد کی ملاقاتوں کا حکم دیا ہے، سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالت کے پاس جیل اتھارٹی کے پاس آرڈر پاس کرنے کا اختیار نہیں، جیل کا معاملہ صوبائی معاملہ ہے، اس عدالت کا دائر اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہم آپ کی بات مان لیں تو اسلام آباد کا کیا ہوگا؟ اڈیالہ جیل صرف پنجاب کا نہیں بلکہ اسلام آباد کا بھی جیل ہے، اسلام آباد کے قیدی اڈیالہ جیل ہی ہوتے ہیں، آپ رولز پڑھ لیجئے اور ہمیں بتائیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ آپ کوئی اور نقطہ اٹھائیں اور دلائل دیں، آپ کی بات اگر مان لیں تو اس کا مطلب کہ سزا ہونے کے بعد ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ صرف سزا یافتہ ہی نہیں وہاں تو انڈر ٹرائل قیدی بھی ہیں پھر تو وہاں بھی ہمارا لینا دینا نہیں ہوگا، آپ اگر میرٹ پر نہیں آتے آپ کی مرضی مگر اس نقطے کو آپ کہیں اور لے کر جارہے ہیں۔

 ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جیل سے متعلق حکومت پنجاب کی ویب سائٹ پر 265 کے رولز مختلف ہیں، رولز کے مطابق ایک ملاقات ایک ہفتے میں ہوسکتی ہے، جیل رولز میں سیاسی لوگوں کی ملاقاتوں کی اجازت نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یعنی کہ اسلام آباد اور پنجاب کے جیل رولز مختلف ہیں؟ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ رولز کونسے نئی ہے اور کونسی پرانی؟ آپ کہتے ہیں کہ جیل سپرٹنڈنٹ آل اینڈ آل ہیں؟ وکیل نے کہا کہ ہم نے اس وقت ہفتے میں 3 ملاقاتوں کی اجازت دی ہوئی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جج صاحب نے اگر روزانہ بھی ملاقات کا کہا ہے تو آپ کروادیں، کم از کم کسی کو وکیل سے ڈسکشن سے تو نہ روکیں۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ اِن چیزوں کو آپ خود دیکھ لیں، ہمارے پاس اگر ایسے درخواستیں آنا شروع ہوگئیں تو ہمارے لیے مسئلہ ہوگا، وہ ایک بڑے سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں، ان سے وکلاء اور قیادت کی ملاقات تو ہوگی، جج صاحب نے کوئی قانون نہیں توڑا، نہ ہی کوئی غلط ڈائرکشن دی ہے، اختیارات آپ کے پاس ہیں مگر قانون قاعدے کو نہیں توڑا جانا چاہیے۔ دریں اثنا عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔آج کیس کے سماعت کے بعد سنی اتحاد کونسل نے احتجاج کیا،اراکین اسمبلی ایک ریلی کی صورت سے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے قومی اسمبلی تک آئے اور اس بات کا مطالبہ کیا کہ بانی تحریک انصاف سے ملاقات کی اجازت دی جائے ورنہ روز اسی طرح کا احتجاج کیا جائے گا جس میں شدت بھی آسکتی ہے۔مزید کیا کچھ ہوا؟اس پر پی ٹی آئی رہنما،وکلاء کا کیا ردعمل ہے؟ دیکھیے اس ویڈیو میں 

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: