طالبان اور افغان فورسز میں گھمسان کی لڑائی۔۔ جگہ جگہ لاشیں۔۔کابل دھماکوں سے گونج اٹھا

Aug 04, 2021 | 21:11:PM
طالبان اور افغان فورسز میں گھمسان کی لڑائی۔۔ جگہ جگہ لاشیں۔۔کابل دھماکوں سے گونج اٹھا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز) طالبان اور افغان فوج کے درمین لڑائی کابل تک پہنچ گئی ادھر جنوبی صوبے ہلمند کے اہم شہر لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ طالبان جنگجوں اور افغان فرسز کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں لشکرگاہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں لاشوں کے ڈھیرلگ گئے۔خونریز لڑائی کے بعد لشکرگاہ کی سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں۔
 سفارت خانوں کے گرین زون میں دھماکے اورفائرنگ میں 8 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے، حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے، افغان دارالحکومت کابل دھماکوں اور فائرنگ سے گونج اٹھا۔ پہلا دھماکا قائم مقام وزیر دفاع جنرل بسم اللہ کی رہائش گاہ کے باہر ہوا جس کے بعد مسلح افراد وزیر دفاع کے گھر میں داخل ہوگئے۔ دو گھنٹے کے اندر ایک اور زور دار دھماکہ ہوا۔افغان حکام کے مطابق جوابی کارروائی میں تمام حملہ آور مارے گئے، وزیردفاع بسم اللہ نے کہا کہ حملے میں میرے گھر کے کچھ گارڈز خمی ہوئے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی اور دیگر بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان ملک کے مختلف حصوں میں لڑائی میں شدت آئی ہے۔اس وقت طالبان افغان صوبے ہلمند، قندھار اور ہرات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور جنگجوﺅں کی جانب سے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ لشکر گاہ پر قبضہ طالبان کے لئے ایک بہت بڑی علامتی کامیابی ہوگی۔ جنوبی ہلمند صوبے کے شہر لشکر گاہ میں امریکی اور افغان ایئرفورس کے طالبان کے خلاف لگاتار حملے جاری ہیں۔ مگر اس کے باوجود طالبان افغان فورسز پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ سنہ 2016 کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پہلا صوبائی دارالخلافہ ہو گا۔اس کے علاوہ افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور جنوب میں صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں شدید لڑائی کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان بڑے شہروں کے مختلف حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب افغان سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ کچھ جگہوں پر قبضے کے بعد کل سے طالبان جنگجوﺅں کو ان شہروں سے واپس پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال سے جاری امریکی جنگ کے بعد جیسے جیسے امریکی و اتحادی افواج کے مکمل انخلا کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے تو ایسے میں طالبان تیزی سے سینکڑوں اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔مغربی شہر ہرات میں افغان حکام کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شہر کے اندر لڑائی جاری ہے لیکن ان کے مطابق گذشتہ رات سے طالبان کے کئی ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی ہے اور ان کی شہر میں داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔حکام کے مطابق ہرات شہر کے مغربی حصے شیوان، دستگر، پشتون پل اور ایئرپورٹ کے راستوں کو طالبان سے چھڑوا لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہر کے داخلی راستوں پر لڑائی تاحال جاری ہے۔
ہرات کے گورنر عبدالصبور قانع نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا کہ شہر کی حفاظت کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ عوامی لشکر بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔ہم ہرات کے باسیوں کو آپ کے توسط سے یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز جنگ کے میدان میں ہیں اور شہر کی حفاظت کر رہی ہیں۔ ہرات شہر طالبان کے قبضے میں نہیں جا رہا۔ہرات شہر میں طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے ساتھ سابق جنگجو کمانڈر اسماعیل خان بھی میدان جنگ میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ کی مدد سے دشمن کو شہر میں گھسنے نہ دیں۔ ہرات شہر میں حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر پر کنٹرول کے لئے طالبان کے تمام حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور سو سے زیادہ طالبان جنگجوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔حکام نے ایک اعلامیہ میں کہا کہ شہر کے بعض شمالی علاقوں اور ضلع انجیل میں طالبان جنگجوﺅں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے اور شہریوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔۔ترجمان امریکی دفترخارجہ نے کابل دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے بزور طاقت حکومت حاصل کی تو دنیا قبول نہیں کرے گی، امریکا افغانستان میں اپنے اتحادیوں کےساتھ کھڑے ہیں،ادھر فغان فورسز نے لشکر گاہ اورہرات میں طالبان کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کیا ہے۔ لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فوج کے مابین شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان نے دعویٰ کیا کہ لشکر گاہ میں سینکڑوں اہلکار ان کے ساتھ ا? ملے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بین الااقوامی افواج کے انخلا کے بعد یہ شہر طالبان کے قبضے میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہو سکتا ہے۔ لشکر گاہ پر قبضہ کرنا طالبان کے لیے بڑی علامتی کامیابی ہوگی۔افغانستان میں جنگ کی وجہ سے ہزاروں افغان باشندے ایران اور ترکی کا رخ کرنے لگے، اوسطاً 2000 افغان باشندے روزانہ ترکی بھی پہنچ رہے ہیں۔
دوسری جانب طالبان ترجمان کا دعویٰ ہے کہ ان کے جنگجو آج بھی ہرات شہر میں موجود ہیں اور ان کے صرف پانچ جنگجو افغان فورسز کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔طالبان کی جانب سے ہرات اور ہلمند میں افغان فورسز کو بھاری نقصانات پہنچانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔ادھر صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ سے بھی سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں آ رہی ہیں اور اس شہر کے اکثر باسی اپنے گھروں میں محصور ہیں۔لشکرگاہ کے ایک شہری نے بتایا کہ شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ایک طرف فضائی بمباری ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی محصور ہیں۔طالبان نے ایک ٹی وی سٹیشن کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے اور دیہی علاقوں سے فرار ہونے والے ہزاروں لوگوں نے شہر کی عمارتوں میں پناہ لے لی ہے۔