چلتے ہیں تو چین کو چلئے

علی رامے

Jan 02, 2024 | 18:07:PM
چلتے ہیں تو چین کو چلئے
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

آپ اپنے ملک کے کسی دوسرے صوبے یا شہر یا پھر کسی بیرون ملک کے تفریحی اور سٹڈی دورے پر ہوں تووہاں آپ کے دل کو بھانے والی مختلف چیزیں ہوتی ہیں ، وہاں کا انفراسٹرکچر، لذیز کھانے ، تفریحی مقامات اور وہاں کے لوگ اور پھر ان کی مہمان نوازی۔ یہ چیزیں نہ صرف آپ کے اپنے ملک میں بلکہ غیر ملکی دورے پر بھی ہمیشہ آپ کو یاد رہتی ہیں اور ایسی خوبصورت یادیں میرے چین کے دورے سے وابستہ ہیں جنہیں میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔  

جرنلزم ایکسچینج پروگرام ختم ہونے کے بعد مجھے چائنا سے پاکستان واپس آئے ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن میرے دل اور دماغ سے ابھی تک چائنا باہر نہیں نکلا اور اس کی وجہ وہاں کی صرف ترقی ہی نہیں بلکہ اصل وجہ ہے وہاں کے لوگوں کا پیار۔اور یہ ایسا پیارتھا جو میں کبھی بھی بھول نہیں پاؤں گا۔ یہ پیار کب شروع ہوا اس کا ذکر میں آج اپنی تحریر میں کرنا چاہتا ہوں۔  

چین میں  قیام کے دوران میں مجھے متعدد صوبوں کے دوروں کا موقع ملا اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور تبادلہ خیال ہوا۔ لیکن ان صوبوں اور شہروں میں ایک شہر ایسا ہے جو آج بھی مجھے اضطراب میں مبتلا کرتا ہے اور اس شہر کا نام ہے چنگدو۔ چنگدو سیچوآن صوبے کا دارالخلافہ ہے۔ اوراس شہرکو چین کا خوش رہنے والے لوگوں کا شہر بھی کہا جاتا ہےاور یہاں مصالحے دار بھی بہت مشہور ہیں جبکہ اس شہرکو دنیا میں پانڈا کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔

ستمبر2023 میں مجھے چنگدو جانے کا موقع ملا اور اس دورے پر میں پہلے بھی کچھ تحریریں لکھ چکا ہوں لیکن ان تحریروں میں ایک چیز کو شامل کرنا بھول گیا تھا ۔ اور وہ تھی اس شہر کے مقامی لوگوں سے ہونے والی ایک ملاقات۔اور یہ وہ میری پہلی کسی چینیوں سے راہ چلتے ملاقات تھی جس میں نہ کوئی میرے ساتھ چینی سرکاری اہلکار تھے اور نہ ہی کوئی اسسٹنٹ ،صرف میں اور میرا ایک دوست صحافی تھا جو میرے ساتھ اس پروگرام کا حصہ تھا۔

جان شیٹی فیجی سے تعلق رکھتے ہین اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ چنگدو میں ہمارا دوسرا روز تھا تو رات کے لگ بھگ بارہ بج چکے تو مجھے چنگدو کے مصالحہ دار کھانا کھانے کے بعد سینے میں جلن ہورہی تھی۔ مجھے اس جلن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے  کہیں اسٹور سے دہی خریدنا تھا ۔ دہی خریدنے کے لیے میں اور جان ہوٹل کے قریب واقع ایک چھوٹے سے اسٹور پر پہنچے تو وہاں سے دہی خریدا اور کیو آر کوڈ اسکین کر کے بل ادا کیا اور دہی لیا۔ ہوا کھانے کے لیے جھیل کے قریب واقع فوڈ اسٹریٹ کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا اور وہاں گھومنے لگے۔ فوڈ سٹریٹ سے گزرتے ہوئے ہمیں وہاں  کے مقامی لوگ مصالحے دار کھانے کھاتے دکھائی دے رہے تھے اور وہ ہمیں حیران کن نظروں سے دیکھ بھ رہے کیونکہ ہم سانولی رنگت کے لوگ تھے اور غیر ملکی بھی۔

خیر ہم فوڈ سٹریٹ مارکیٹ سے ہوتے ہوئے جھیل کے پاس بینچ پر بیٹھے اور مصالحے دار کھانے کو ہضم کرنے کے لیے پھر ایک کوشش کی کہ سوڈا ڈرنک کا سہارا لیا جائے اور ہم نے سوڈا بھی پیا۔ جس سے ہمیں ریلیف ملا اور وہ سوڈے کی بوتل پی کر مجھے لاہوری لکڑ ہضم پتھر ہضم سوڈا بھی یاد آیا۔سوڈے سے من ہلکا ہوا تو گروپ میں میسیج آتا ہے کہ صبح جلدی ہوٹل سے اگلے کسی دورے پر جانا ہے تو کل بروقت بس میں بیٹھ کر اپنی حاضری لگوائی جائے جس کے لیے میں نے اور جان نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمیں چلنا چاہیئے۔اور ہم چل دئیے۔

ہمارا ہوٹل جھیل کی دوسری طرف تھا جس کے لیے ہمیں ایک چھوٹا مگر خوبصوت سفید پل کراس کرنا تھا ابھی ہم نصف پل پر ہی تھے کہ ہمیں سامنے سے دو چینی لڑکے اور لڑکیاں دکھائیں دیں وہ ہمیں دیکھ رہے تھے اور ہم ان کو، اسی دوران ایک چینی بھائی نے ہمیں پوچھ لیا آپ کہاں سے ہیں تو میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں تو اس ایک لمحے مین ہی حیران اور خوش ہو کر بولا اوہ آپ پاکستان سے ہیں تو میں نہ کہا جی میں پاکستان سے ہوں تو اس نے مجھے چینی زبان میں پاتھیا کہا۔ اور پاتھیا لفظ سے میں چین آکر ہی آشنا ہوا تھا اس سے پہلے نہیں۔ اس لفظ کا مطلب ہے آہنی دوست یعنی آئرن برادر، اور چینی یہ لفظ پاکستان اور چین کی دوستی کے لیے استعال کرتے ہیں۔

خیر اس دوران انہوں نے مجھ سے اور میرے دوست جان سے مصافحہ کیا تو میں نے جان کا  تعارف بھی کرایا اور چائنا آنے کے مقصد بارے کچھ تفصیلات دیں تو اسی دوران انہوں نے ہمیں کھانے کی دعوت دی کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آئیں ہمارے ساتھ کھانا کھائیں ۔ لیکن میں نے انہیں کہا کہ ہم کھانا پہلے ہی کھا چکے ہیں اور اب مزید گنجائش نہیں ہے لہذا آپ ہمیں جانے دیں لیکن ان کی محبت اور چاہت بھری دعوت کو ہم ٹھکرا نہیں پائے تو ہمیں ان کے ساتھ جانا پڑا۔ اب ہم اسی جھیل کے کنارے واقع فوڈ سٹریٹ کے ایک ریسٹورینٹ پر بیٹھ گئے جہاں انہوں نے ہم سے کھانے کا پوچھا ،لیکن میں نے انہیں پھر بھی یہ بتایا کہ ہم کھانا کھا چکے ہین تو اب مزید نہیں کھا سکتے ۔ تو پھر انہوں نے چینی کہوہ پینے کو کہا تو ہم نے رضامندی دی کیونکہ ہم کھانا ہضم کرنا چاہتے تھے ۔

چین میں اب یہ میری پہلی کسی مقامی لوگوں سے آزادانہ اور راہ چلتے ملاقات تھی اور اس ملاقات میں ایسے محسوس ہو رہا تھا جسیے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔اب وہ چینی بھائی ہلکا پھلکا سا کھانا کھا رہے اور میں کہوے  سے اپنے تیز مصالحے والے کھانے کو ہضم کرنے کی مسلسل کوشش میں ہوں ۔ہماری گفتگو جاری ہے انہوں نے اپنا تعارف کرایا ۔ جس میں ایک بھائی کا انگلش نام کوانٹم جبکہ دوسرے کا نام لی جیان ہوا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا تعارف کرایا کہ وہ یہان چنگدو کے رہاہشی ہین اورآئی ٹی سے جڑے کسی کاروبار سے منسلک ہیں ۔تو پھر ہم نے انہیں اپنے چائنا کے دورے بارے میں بتایا کہ ہم صحافی ہیں اور یہاں ایک سٹڈی پروگرام کے تحت سیچوآن صوبے کے دورے پر ہیں ۔

کھانے کی میز پر ہماری گفتگو تقریبا ڈیٹھ گھنٹہ جاری رہی جس میں ایک دوسرے کے ملک اور کچلر بارے سیر حاصل گفتگو ہوئی اور رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے۔ اسی دوران ایک نوجوان پینسل کے پیکٹ فروخت کرنے کے لیے ہماری میز پر آیا تو میں نے انکار کردیا مگر اس چینی بھائی نے وہ پیکٹ لیا اور مجھے تحفہ دیا اور کہا کہ آپ صحافی ہین اور اس پین سے میرے ملک اور میرے ملک کے لوگوں کے بارے مین اچھا لکھیے گا۔اور لکھنا کہ چینی  اپنے غیر ملکی مہمانوں کو بہت محبت کرتے ہیں اور انہیں چین میں خوش آمدید کہتے ہیں -

میں نے پینسل کا پیکٹ اپنے پاس رکھا اور ان سے وعدہ کیا کہ میں جو بھی لکھوں گا ایمانداری سے لکھوں گا۔ اورہاں یہاں اب آپ کو یہ وضاحت ضرور کردوں کہ  ہم نے چینی بھائیوں سے جو ایک لمبی گفتگو کی وہ انگلش میں کم تھی بلکہ ہم ٹرانسلیٹر کاا اور وی چیٹ کا استعمال کررہے تھے ۔۔ اور ٹرانسلیٹر اور وی چیٹ سے ہماری  گفتگو ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی ۔ اور اس ملاقات میں یقین کریں مجھے اس دن اتنی خوشی ہوئی کہ اس ملاقات نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا ۔ ۔۔

 

کہ اگر آپ ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکتے تو پھر بھی الفت اور چاہت ہوتے ہوئے آپ کو لفظوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ پاس بیٹھے شخص کی مسکراہٹ ہی سب کچھ بیان کردیتی ہے ۔اس ملاقات میں نہ انہوں نے ہم سے کچھ مطالبہ کیا اور نہ ہم نے ۔ بس مطالبہ ایک ہی تھا ہم اس ملاقات کو ضرور یاد رکھیں گے۔ اوریقیننا میں یہ ملاقات ضرور یاد رکھوں گا۔کیونکہ اس ایک ملاقات نے مجھے چین کے لوگوں کے مزید قریب کردیا تھا، اور یہی وجہ ہے میں آج چین کو بہت یاد کررہا ہوں۔ اس سے پہلے میرے ذہن میں چین کے لوگوں کے متعلق یہی باتیں تھیں کہ چین کے لوگ جلدی کسی سے بات نہیں کرتے اور یہ غرور کرنے والی قوم ہے کیونکہ یہ اب ترقی کر چکے ہیں۔ لیکن یہ سب اس رات غلط ثابت ہوا ۔اور پھر اس ایک ملاقات کے بعد مجھے چین کے مقامی لوگوں سے ملنے کا اتفاق کئی بار ہوا اور جس کا ذکر میں پھر اگلی تحریر میں ضرور کروں گا۔

ضروری نوٹ:ادارے کا رائٹر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

علی رامے

علی رامے سٹی نیوز نیٹ ورک سے وابستہ ایک سینئر تحقیقاتی رپورٹر ہیں۔ وہ 2013 سے اس گروپ سے وابستہ ہیں اور بنیادی طور پر پنجاب حکومت کے ماتحت محکموں میں تحقیقاتی اور دلچسپ  اسٹوریز کا احاطہ کرتے ہیں۔