مسلم علماءنے گینگ وا ر کے گڑھ کیپ ٹائون کو امن کا گہوارا بنا دیا،بی بی سی معترف

Mar 01, 2021 | 21:03:PM
مسلم علماءنے گینگ وا ر کے گڑھ کیپ ٹائون کو امن کا گہوارا بنا دیا،بی بی سی معترف
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)برطانوی خبر رساں ادارے ’ بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقا میں مسلمان علماءکی ایک ٹیم پچھلے 3 سالوں سے کیپ ٹائون کے کئی علاقوں میں منشیات سمگلروں کی گینگ وار اور منشیات سے چھٹکارے اور امن لانے کے مشن پر ہے۔

تفصیلات کے مطا بق جمعرات کی شام یہ سکالرز کھلی فضا میں عبادت کے لیے کیپ ٹائون کے گینگ لینڈ جاتے ہیں۔ عبادت کو ’ذکر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عبادت کے دوران خدا کے نام اور اس کے اوصاف کا بار بار بلند آواز میں ذکر کیا جاتا ہے۔منتظمین کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں ڈیڑھ گھنٹے کی عبادت کے دوران کوئی بھی لڑائی نہیں ہوئی۔ عام طور پر 100 سے 400 افراد اس ذکر میں شرکت کرتے ہیں۔

ایک عبادت صرف صنف پر مبنی تشدد سے لڑنے کے لیے وقف تھی جو جنوبی افریقا میں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اس عبادت میں تقریباً دو ہزار افراد شریک تھے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مینن برگ کیپ ٹائون میں ایک بستی ہے جسے 1960 کی دہائی میں کم آمدنی والے افراد کیلئے حکومت کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا، یہ ملک میں مخلوط نسل کے افراد کے لیے سرکاری اصطلاح ہے۔

 اس وقت کی سفید فام اقلیت والی حکومت نے زبردستی فرقوں کی بنیاد پر نسلوں کو الگ الگ کر دیا تھا، جس سے سفید فام لوگوں کو شہروں کے متمول علاقوں میں رہنے کا موقع مل گیا۔بی بی سی کے مطابق اس بستی میں ایک اندازے کے مطابق 52000 سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں، جو بنیادی طور پر مسیحی ہیں۔ یہاں بے روزگاری، غربت، جرائم اور گینگ وارز عروج پر ہیں۔حالانکہ ’ذکر‘ سے کچھ گھنٹے قبل ان فلیٹوں پر فائرنگ کی گئی تھی اور ہفتے کے آخر میں گینگ لینڈ میں فائرنگ کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تاہم مینن برگ میں گینگز کے مابین شدید لڑائی کے بعد فی الحال جنگ بندی جاری ہے۔

’ذکر‘ کے منتظمین کو لگتا ہے کہ کبھی بھی تشدد کا خاتمہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اب تک حکومت نے اس سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب کوشش نہیں کی ہے۔شیخ اسحاق کے نزدیک کمیونٹی کے مختلف مذہبی رہنمائوں کو شامل کرنا ایک اچھی شروعات ہوگی، جرائم کی کوئی حد نہیں ہے اور نہ ہی وہ مذہب میں فرق کرتے ہیں۔

دنیا بھر کے اکثر علاقوں کی طرح وہاں بھی اس کھانے کو ’نیاز‘ کا نام دیا جاتا ہے۔چونکہ مینن برگ میں رہنے والے اکثر افراد کا تعلق غریب طبقہ سے ہے، لہذا عقیدت مندوں کو ’ذکر‘ کے بعد گرم گرم کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ حکام کو اس بستی میں زیادہ آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور یہاں مزید فلیٹ بنانے کے بجائے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے میں مدد کرنی چاہیے سکیورٹی فورسز کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا چاہیے۔ کچھ عیسائی بھی اس ’ذکر‘ میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے قریبی اپارٹمنٹس سے اس عبادت کو دیکھتے ہیں۔کیپ ٹائون میں ’ذکر‘ کی محفل میں شرکت کرنے والوں کو کیک یا کھانے میں کچھ میٹھا دیا جاتا ہے ۔

2015 کے وسط میں حکام نے منین برگ کو ’خطرے کا ریڈ زون‘ قرار دے دیا تھا اور متعدد مہینوں تک ایمبولینسیں اس وقت تک اس علاقے میں داخل نہیں ہوسکتی تھیں جب تک کہ پولیس کی مدد نہ لی جائے۔
تاہم شیخ اسحاق کا کہنا ہے کہ اب اکثر اس علاقے کے غنڈے عبادت کے آغاز سے قبل چٹائیاں وغیرہ بچھانے میں مسلمان سکالرز کی مدد کرتے ہیں۔بچوں کو منشیات کے اثرات کے بارے میں متنبہ کیا جاتا ہے اور انھیں اس امید پر ’ذکر‘ سیشن میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ غنڈوں اور منشیات فروشوں کا شکار نہ ہوں۔عیسائی برادری کی جانب سے ان ’ذکر‘ سیشنز کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور منتظمین کو امید ہے کہ وہ مسلمانوں کو پرسکون اور عدم تشدد والی برادری کے طور پر پیش کر سکیں گے۔