عمران خان ۔۔۔ ملکی سیاست کا "نیا الطاف حسین" 

تحریر: احمد منصور

Dec 30, 2023 | 15:54:PM
عمران خان ۔۔۔ ملکی سیاست کا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

مثل مشہور ہے کہ خود تجربات کی بھٹی کا ایندھن بننے کی بجائے انسان کو دوسروں کے تجربات سے سیکھنا چاہیئے ، ریاست اور ریاستی اداروں کو چیلنج کر کے ملک و قوم کو آزمائش سے دوچار کرنے والا ایک لیڈر پہلے یہ تجربہ کر چکا ہے ، وہ بھی سمجھتا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی ہے ، اس کی ہر ضد ، ہر ہٹ دھرمی اور ہر مطالبے کے سامنے آخر کار اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دے گی لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ریاست عام حالات میں بے شک ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن ہنگامی حالات میں "باپ" بن جاتی ہے ، جو ضدی ، ہٹ دھرم اور سرکش اولاد کو سیدھا کرنے کیلئے پھر وہی فارمولا استعمال کرتا ہے کہ جس کے بارے میں مشہور ضرب المثل ہے کہ ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔

تیسری دنیا کے ممالک میں یہ ایک معمول رہا ہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ  میدان سیاست کے جن "کھلاڑیوں" کی سرپرستی کرکے انہیں قومی سطح پر اہم کردار دیتی ہے ان کا کچھ شرپسند یا "ایول جیںنئس" قسم کا حصہ ، اپنی لا محدود خواہشات کا اسیر ہو کر عالمی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن جاتا ہے ، میدان سیاست سے میدان صحافت تک بہت سے شعبے ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں ،متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین ایسے ہی ایک تجربے کی بھینٹ چڑھے ،  غیر ملکی قوتوں نے انہیں پاکستان دشمنی کا ٹھیکہ دے کر پاکستان کو کئی عشروں تک سیاسی و معاشی افراتفری کے عذاب میں ڈالے رکھا ،ماں کے جیسی ریاست برداشت کرتی رہی لیکن پھر آخر کار اسے باپ بن کر دکھانا پڑا ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ قومی سیاست سے الطاف حسین کو "فارغ" کرنا ایک قسم کا "ٹریلر"  تھا اور عمران خان کے حوالے سے اب پوری فلم چلانی پڑے گی ، کیونکہ ان کا معاملہ "الطاف بھائی" سے زیادہ سنگین بھی ہے اور اس کا جغرافیہ اور حدود اربعہ بھی بہت وسیع و عریض ہے   اور انصاف یہی ہے کہ "سزا" کا  تعین جرم کے "قدوقامت" کے برابر ہوتا ہے ،  اس لیےعمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے پوری فلم چلنا ہی قرین انصاف ہے۔

دنیا نے دیکھا کہ جس ایم کیو ایم کی طاقت نے ملک کے معاشی دارالحکومت کراچی کو کئی عشروں تک یرغمال بنا کر ریاست کو مسائل کی ایک کربناک دلدل میں دھنسا دیا تھا ، وہی ایم کیو ایم ایسی  بےبس اور لاچار ہوئی کہ پارہ پارہ ہو کر اس  کے حصے بخرے ہوگئے،اس کے لیڈر آپس میں لڑ پڑے، سیاسی وراثت کی تقسیم کی لڑائی چلی تو خالد مقبول صدیقی ، مصطفی کمال اور فاروق ستار نے اپنے اپنے "راجواڑے" بنا لیئے ۔

ایم کیو ایم کا جو ٹریلر چلا تھا آج پی ٹی آئی کی اس حوالے سے پوری فلم چلنا شروع ہو چکی ہے ، خیبرپختونخوا کے سابق وزراء اعلیٰ پرویز خٹک اور محمود خان نے اپنی جماعت پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز بنا لی ہے ، جہانگیر ترین اور علیم خان پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بنا کر متحرک ہیں ، کراچی اور سندھ کے سرکردہ لیڈروں میں سے کچھ تو اسد عمر کی طرح "ریٹائرمنٹ" لے کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور کچھ فیصل واوڈا کی طرح دوسری مین اسٹریم سیاسی جماعتوں میں شمولیت کیلئے ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں ۔ 

عمران خان اور ان کے بچے کھچے حواری یا تو جیلوں میں ہیں یا روپوش ہیں ، ان میں سے کچھ بھگوڑے بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں ، اس سب کے باوجود  دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے دوتہائی اکثریت کے ساتھ عام انتخابات جیتنے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں،’’پلے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ ‘‘دن میں خواب دیکھنے والے عمرانی ٹولے نے اپنی کامیابیوں کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ساتھ  قوم میں مایوسی اور ہیجان پھیلانے کا بھی ٹھیکہ لے رکھا ہے ، مقصد ان سائبر ٹیررسٹس کا بس ایک ہی ہے کہ جس طرح الطاف حسین نے ملک کے معاشی دارالحکومت کو مفلوج کیئے رکھا یہ پورے پاکستان کو مفلوج کر دیں، رہی سہی کسر وکلاء ٹولے کے ہاتھوں پوری کی جا رہی ہے۔

نیشنل فارمرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نےکہا ہےکہ سوشل میڈیا پر ہیجان ، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے ، جھوٹی خبروں سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے ریاست وجود کھوتی جا رہی ہے ، قوم کے ساتھ مل کر ہر قسم کے مافیا کی سرکوبی کریں گے،آرمی چیف کا یہ کہنا بجا ہے کہ محض اپنے عارضی سیاسی مقاصد کیلئے سوشل میڈیا پر پاکستان کے بارے میں افواہیں اور منفی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں جسے ہم سائبر ٹیرر ازم کی ایک نئی شکل بھی کہہ سکتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس فکری دہشت گردی میں ہمارے وہ اپنے بھی ملوث ہیں کہ جنہیں برسوں تک بہت ناز نخروں سے پالا گیا تھا ، زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچایا گیا ، اقتدار میں لایا گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو ، دس پندرہ برس کی سیاسی ریاضت کے باوجود جس لیڈر کو قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم سے ملی تھی اس کا سات آٹھ برسوں کے اندر ملک گیر سیاسی جماعت کا قائد اور وزیراعظم پاکستان بن جانا بلاشبہ "کسی" کا احسان ہی تھا لیکن موصوف ایسے احسان فراموش نکلے کہ اپنے محسنوں کیلئے ہی ڈرٹی ہیری جیسے انتہائی گھٹیا الفاظ استعمال کرنے لگے ، اپنے کارکنوں میں ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف اشتعال ، غصہ ، نفرت اور انتقامی جذبات کا بیج بونے کیلئے ریاست اور ریاستی اداروں کی ناکامی کا پروپیگنڈہ انتہا تک پہنچا دیا ، جب کچھ نہ بن پڑا تو  ہیجان اور مایوسی کی فصل کاشت کرنا شروع کر دی ۔

ریاست جب اپنی پوری قوت کے ساتھ برسر پیکار آتی ہے تو پھر اس کے سامنے بندھ باندھنا ممکن نہیں رہتا ، الطاف حسین کی سیاست اس کا مزہ چکھ چکی ہے اور رواں عشرے کا "الطاف حسین" عمران خان کی شکل میں اب یہ مزہ چکھ رہا ہے،اس سارے معاملے میں آپ جنرل فیصل نصیر کو کریڈٹ دیں یا  جنرل ندیم انجم کو ، یا پھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ، کریڈٹ تو آخر کار ریاست پاکستان کو ہی دینا پڑے گا کہ عالمی سازشوں کے تحت مملکت خداداد پر ایک کے بعد ایک الطاف حسین مسلط کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اور پاک فوج  ہائبرڈ وار کے ایسے ہر حملے کو پسپا کر دیتی ہے، ایک زمانہ تھا کہ الطاف حسین والے "ٹریلر" کا شہرہ تھا ، لیکن آج عمران والی "پوری فلم" چل رہی ہے اور باکس آفس پر ہٹ بھی ہو رہی ہے ، عالمی سازش کا یہ نیا مہرہ بھی اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ، پی ٹی آئی فارغ ہو چکی ہے ، 8 فروری کو عمران خان بھی "الطاف حسین" بن چکا ہو گا ، ہر ملک دشمن ایجنڈے کا آخر کار ایسا ہی انجام ہوگا ، یہ طے کر لیا گیا ہے ،جسے ابھی تک شک ہے ، 8 فروری کے بعد اسے بھی یقین آ جائے گا۔

نوٹ:(یہ تحریر بلاگر کی ذاتی رائے ہے ، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں )

دیگر کیٹیگریز: بلاگ
ٹیگز: