بلوچستان میں الیکشن کمیشن نے سابق صوبائی وزیر کی جیت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

Mar 29, 2024 | 23:21:PM
بلوچستان میں الیکشن کمیشن نے سابق صوبائی وزیر کی جیت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) الیکشن کمیشن نے سابق صوبائی وزیر زمرک خان کی بطور رکن بلوچستان اسمبلی پی بی 50 (قلعہ عبداللہ)سے جیت کا نوٹیفکیشن واپس لیتے ہوئے پورے حلقے میں 21 اپریل کو دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔

سپریم کورٹ کے جاری کردہ احکامات کے مطابق الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز حلقے کے 6 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کا نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا جہاں 28 مارچ کو پولنگ ہونی تھی، الیکشن کمیشن نے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 50 اور 51 کے تحت قلعہ عبداللہ کے ڈپٹی کمشنر ذاکر علی کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر مقرر کردیا، گلستان کے اسسٹنٹ کمشنر ظہیر احمد کو بطور ریٹرننگ افسر، دوبندی کے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر، عبدالمتین اور قلعہ عبدالل کے نائب تحصیلدار انور علی کو پی بی 50 کے لیے بطور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران تعینات کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عید پیکیج کی منظوری

واضح رہے کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کی باہمی رضامندی کے بعد حلقہ پی بی 50 کے لیے دوبارہ انتخابات کا حکم دیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے، 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک خان پی بی 50 سے کامیاب ہوئے تھے، جسے جمعیت علمائے اسلام کے ملک نواز نے الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا تھا۔

زمرک خان نے 44 ہزار 713 ووٹ حاصل کیے جب کہ ملک نواز 43 ہزار 445 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے میر واعظ خان اچکزئی نے 34 ہزار 604 ووٹ حاصل کیے، سماعت کے دوران اے این پی رہنما کے وکیل نے مقف اختیار کیا کہ حلقے کے کئی پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آٹ غیر فطری رہا تاہم وہاں دوبارہ انتخابات کا حکم نہیں دیا گیا، دوبارہ انتخابات کا حکم صرف ان پولنگ سٹیشنوں پر دیا گیا جہاں ان کے مکل کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں انتخابات کے بعد والا ہفتہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے احتجاج سے متاثر رہا جب مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں بشمول دھاندلی، جوڑ توڑ اور انتخابی نتائج کے اعلان میں بے جا تاخیر کے خلاف کارکنان سڑکوں پر نکل آئے، تحمل سے کام لینے اور مذاکرات کی اپیلوں کے باوجود سیاسی اور مذہبی گروہوں نے انتخابی شفافیت اور احتساب کے اپنے مطالبات پر زور دیتے ہوئے ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کیا تھا۔