یوسف رضاگیلانی کے پاس اکثریت ہے تو وہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹا سکتے ہیں ،اسلام آبادہائیکورٹ

Mar 24, 2021 | 18:47:PM
یوسف رضاگیلانی کے پاس اکثریت ہے تو وہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹا سکتے ہیں ،اسلام آبادہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)اسلام آبادہائیکورٹ نے چیئرمین سینیٹ کیخلاف یوسف رضاگیلانی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردے کر خارج کردی۔صادق سنجرانی ہی چیئرمین سینیٹ رہیں گے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 13 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا،فیصلے میں کہاگیا ہے کہ عدالت توقع رکھتی ہے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا،توقع ہے کہ پارلیمنٹ کے مسائل پارلیمنٹ کے اندر ہی حل کئے جائیں گے، آرٹیکل 69 کے تحت عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی ، تحریری حکم میں مزید کہاگیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن سینیٹ کا اندرونی معاملہ ہے ۔
عدالتی فیصلے میں کہاگیاہے کہ یوسف رضاگیلانی کے پاس متبادل آئینی راستہ موجود ہے،گیلانی پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار ہونے پر اکثریت کا دعویٰ کرتے ہیں،یوسف رضاگیلانی کے پاس اکثریت ہے تو وہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹا سکتے ہیں ،اسی اکثریت کی بنیاد پرگیلانی خود چیئرمین سینیٹ منتخب ہو سکتے ہیں،ایسا کرنے سے پارلیمنٹ کی خودمختاری بھی قائم رہے گی،سینیٹ الیکشن کا سار عمل ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین سینٹ الیکشن کے خلاف یوسف رضاگیلانی کی درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔درخواست گزار سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر دلائل دئیے۔ فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد کئے گئے۔ مہر یوسف رضا گیلانی کے نام پر لگی لیکن اسی خانے کے اندر تھی۔پریزائیڈنگ افسر نے کہا کہ میرے ووٹ مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیں۔
 اس موقع پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ چیئرمین سینٹ کے الیکشن کس قانون کے تحت ہوئے ؟ جس پر وکیل پیپلزپارٹی نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 60 کے تحت چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہوا، فاروق ایچ نائیک نے فاروق ایچ نائیک نے آئین کا آرٹیکل 60 عدالت کے سامنے پڑھ کر بھی سنایا۔ دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ صدر پاکستان نے سینیٹر مظفر شاہ کو سینٹ الیکشن میں پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کی کوئی شمولیت نہیں، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا جی، چیئرمین سینٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر پارلیمان کی اندرونی کارروائی کے استحقاق کے آئین کے آرٹیکل 69 سے کیسے نکلیں گے؟ جو پارلیمان کی اندرونی کارروائی ہوتی ہے کیا وہ عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ اگر پروسیجر میں کوئی بے ضابطگی ہو تو وہ عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی۔ رولز میں بیلٹ پیپر یا ووٹ سے متعلق کچھ نہیں، رولز اس حوالے سے خاموش ہیں۔ 12 مارچ کے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں پارلیمان کا بزنس یا پروسیجر شامل نہیں۔ میں عدالت میں پروسیجر نہیں بلکہ الیکشن کو چیلنج کر رہا ہوں۔ وکیل پیپلزپارٹی نے مزید دلائل دئیے کہ پروسیجر یا رولز آف بزنس میں چیئرمین سینٹ کا الیکشن شامل نہیں۔سیکرٹری سینٹ نے ہدایات دیں کہ خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگائی جا سکتی ہے۔ شیری رحمان، سعید غنی اور میں نے بیان حلفی عدالت میں دیا ہے کہ سیکرٹری سینٹ نے خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگانے کا کہا۔ سیکرٹری سینٹ کے کہنے کے بعد ہم نے اپنے سینیٹرز کو کہیں بھی مہر لگانے کا کہا۔یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ چیئرمین سینٹ کا الیکشن عدالت میں چیلنج ہوا ہے۔ اس کیس میں یہ عدالت تاریخی فیصلہ دیگی۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ یہ معاملہ سینٹ کمیٹی کے پاس بھی تو لے جاسکتے ہیں۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا سینٹ کمیٹی کے پاس چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کا اختیار نہیں۔عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔