اقلیت کے باوجود صادق سنجرانی کی چیئر مین سینٹ بننے کی کوششیں تیز

Mar 06, 2021 | 16:48:PM
 اقلیت کے باوجود صادق سنجرانی کی چیئر مین سینٹ بننے کی کوششیں تیز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play


(24نیوز) حکومتی امیدوارصادق سنجرانی نے دوبارہ چیئر مین سینٹ بننے کیلئے کوششیں اور رابطے تیز کر د یئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کی صادق سنجرانی نے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، امین الحق، خالد مگسی،منظور کاکڑ، کہدہ بابر شریک تھے، ملاقات میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال اور چیئرمین سینٹ کے انتخابات پر تبادلہ خیال کیا گیا ،اس موقع پر صادق سنجرانی نے سینٹ انتخابات کے لئے حمایت مانگ لی۔
ادھرمسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ق لیگ صادق سنجرانی کی حمایت کر ے گی اور انہیں ووٹ دے گی۔
واضح رہے کہ چیئر مین سینٹ انتخاب کیلئے12مارچ کو میدان سجے گا۔امکان ہے کہ صادق سنجرانی کا مقابلہ حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی سے ہوگا تاہم ابھی تک انہیں باضابطہ طور پر امیدوار نامزد نہیں کیا گیا۔
یاد رہے3مارچ کو ہونیوالے سینٹ الیکشن کے بعد حکومتی جماعت تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے تاہم 100 ارکان کے ایوان بالا میں اپوزیشن اتحاد حکومتی اتحاد پر بھاری ہوگیا ہے اور اسے حکومتی اتحاد پر 6 ارکان کی برتری حاصل ہوگئی ہے اس وقت ایوان بالا میں اپوزیشن اتحادکے ارکان کی تعداد 53 ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 47 ہے۔اس تناظر میں صادق سنجرانی کو جب تک اپوزیشن ارکان میں سے مطلوب حمایت نہیں ملتی تو ان کا چیئر مین سینٹ بننا مشکل ہے۔
خیال رہے 3مارچ کو ہونے والے37 نشستوں کے انتخاب کے نتائج کے مطابق 37 میں سے حکمران جماعت تحریک انصاف نے 13 نشستیں جیتی ہیں، ان میں سے خیبر پختونخوا سے10، سندھ سے 2 اور اسلام آباد سے ایک نشست جیتی ہے اور پنجاب کی 5 نشستیں بھی شامل کرلی جائیں تو پی ٹی آئی کی مجموعی نئی نشستیں 18 ہوجاتی ہیں۔ اس طرح نئی 18 اور پرانی7 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف 25 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔
پیپلز پارٹی نے8 نئی سیٹیں جیتی ہیں جن میں سے7سندھ سے اور ایک اسلام آباد کی نشست شامل ہے، اس طرح پرانی 13 نشستوں کو ملا کے 21 سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی ایوان کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب سے 5 نئی نشستیں حاصل کی ہیں جس کے بعد 12 پرانی نشستوں کے بعد ن لیگ کی ایوان میں 17 نشستیں ہیں اور وہ سینیٹ میں دوسرے سے تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے 3 نشستیں حاصل کیں ان میں سے 2 نشستیں بلوچستان اور ایک کے پی سے جیتی ہیں اور 2 پرانی نشستوں کے ساتھ جے یو آئی کی 5 نشستیں ہوگئی ہیں۔ ایم کیو ایم نے 2 نشستیں جیتیں اور یہ دونوں نشستیں سندھ سے حاصل کی ہیں جبکہ پرانے ایک سینیٹرکے ساتھ اس کے 3 ممبر ہوگئے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی نے 2 نشستیں حاصل کیں جن میں سے ایک بلوچستان اور ایک کے پی سے حاصل کی اور اس کی ایوان میں 2 نشستیں ہی ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی( مینگل) نے سینیٹ کی 2 نشستیں جیتیں اور یہ دونوں نشستیں بلوچستان اسمبلی سے حاصل ہوئیں، اس کی بھی ایوان میں کل 2 نشستیں ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے 6 نشستیں جیتیں ہیں اور یہ تمام سیٹیں بلوچستان سے جیتی ہیں جس کے بعد 7 پرانی نشستوں کے ساتھ اس کی 13 نشستیں ہوگئی ہیں۔مسلم لیگ ق کو سینیٹ کی ایک نشست ملی ہے اور اس کا ایک سینیٹر ہے۔بلوچستان اسمبلی سے ایک آزاد امیدوار عبدالقادر بھی کامیاب ہوئے ہیں جنہیں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی، ان کے علاوہ پہلے سے موجود آزاد امیدواروں کی تعداد 4 تھی جوکہ اب 5 ہوچکی ہے۔
ن کے علاوہ ایوان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2، نیشنل پارٹی کے 2 اور جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کا ایک، ایک ممبر ہے۔48 نشستوں میں سے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کو مجموعی طور پر 28 نشستیں ملی ہیں جبکہ پی ڈی ایم کو مجموعی طور پر 20 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔