سائفر سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت، چیف جسٹس عامر فاروق کے سوالوں سے پراسیکیوٹر پریشان

May 21, 2024 | 18:55:PM
سائفر سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت، چیف جسٹس عامر فاروق کے سوالوں سے پراسیکیوٹر پریشان
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احتشام کیانی) بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی سائفر سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کے سوالوں سے ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ پریشان ہو گئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی۔

ماہرین کے بیانات پر جرح

سماعت شروع ہوتے ہی فاضل ججوں کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ آج دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرونگا، اس کیس میں آڈیو اور ویڈیو شواہد ایکسپرٹس نے پیش کیے ہیں، ایکسپرٹس نے ٹیپس پیش کرتے وقت کہا کہ ہم نے ریکارڈ کیا ہے، ایکسپرٹس کے بیانات کے بعد اُن پر جرح بھی کی گئی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا عدالت نے فیصلے میں اِن شواہد پر انحصار کیا ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ نے ایکسپرٹس کی شہادت کو اپنے فیصلے میں ڈسکس کیا ہے، عدالت نے سوال کیا تھا کہ وہ دستاویز سائفر کیسے ہے، اس متعلق بتاؤں گا۔

سائفر کے متن پر جرح

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ سائفر کا متن کہاں ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان پر عائد کی گئی فردِ جرم سائفر سے متعلق تھی، بانی پی ٹی آئی کو بطور وزیراعظم سائفر دستاویز فراہم کیا گیا، بانی پی ٹی آئی اِس بات کو خود تسلیم کر چکے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کو پبلک کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے سائفر میں بانی پی ٹی آئی کو ہٹانے کا کہا تھا ، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے تسلیم کرلیا

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا محض معلومات دینا بھی جرم بنتا ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی، وہ بھی جرم بنتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے اس عمل سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا، بانی پی ٹی آئی کے دانستہ یا نادانستہ اقدام سے دیگر ممالک نے فائدہ اٹھایا، سائفر کی معلومات صرف 9 لوگوں سے شیئر کی جاتی ہے، بانی پی ٹی آئی کو 9 مارچ کو سائفر کاپی ملی اور انہوں نے 27 مارچ کو پبلک کر دی، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کے متن میں ذاتی فائدے کیلئے ہیرا پھیری کی۔

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ ہمارے پاس دستاویز ہی نہیں تو پھر کیسے موازنہ (Compare) کریں؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایک آدمی تسلیم کر رہا ہے کہ یہ سائفر ہے اور یہ میں کر رہا ہوں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کا متن کیا تھا وہ ہی بتا دیں، ہمیں کیا پتہ یا ٹرائل کورٹ کو کیا پتہ۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے دو سوالات

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ میرے دو سوالات ہیں، سائفر کے متن پر ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا، سائفر کا متن پاکستان کیلئے خوفناک تھا، وہ کوئی لو لیٹر تو نہیں تھا جس پر ڈی مارش کیا گیا، سائفر میں کیا تھا جس معلومات سے ہیرا پھیری کی گئی؟ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر میں کہا گیا اگر اسے نہ ہٹایا تو نتائج بھگتنے ہونگے، یہی سائفر کا متن تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو نہ ہٹایا تو نتائج ہونگے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے جو کہا وہ درست تھا؟ کیا بانی پی ٹی آئی سچ بول رہے تھے؟ 

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے استفسار پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ بالکل یہی میسج تھا، بانی پی ٹی آئی خود تسلیم کر رہے ہیں۔

سائفر میں تبدیلی

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کو چھوڑ دیں آپ خود بتائیں کہ کیا تھا جسے تبدیل کیا گیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ شاہ صاحب ایسے نہیں ہے، آپ سول معاملے کی بات کر رہے ہیں یہ کرمنل کیس ہے، کرمنل کیس میں پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کرنا ہے، اگر ملزم خود تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنا ہے، ایڈمیشن کا یہ مطلب نہیں کہ پراسیکیوشن ڈسچارج ہو گئی، پوچھ پوچھ کر تھک گئے ہیں اَس بند لفافے میں تھا کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے استفسار کیا کہ سائفر 100 صفحات کا بھی ہو سکتا ہے ایک پیراگراف کا بھی ہو سکتا ہے، ہمیں نہیں پتہ، ٹرائل کورٹ کو نہیں پتہ، پراسیکیوشن کو نہیں پتہ، ایف آئی اے کا الزام ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر میں ہیرا پھیری کی، آپ کہہ رہے ہیں کہ اُس نے سائفر کا درست متن پبلک کر دیا تو پھر ہیرا پھیری کیا ہوئی؟ 

ججوں کے سوالات

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ بلاواسطہ ہی سہی، کس ملک کو اس کا فائدہ ہوا؟ اگر سارے کہہ دیں کہ رات ہو گئی تو رات تو نہیں ہو جائے گی نا، اگر سب کہہ رہے ہیں کہ تعلقات خراب ہو گئے تو اس طرح تو نہیں ہو جائیں گے، کسی نے جنگ کا اعلان کر دیا اقوام متحدہ میں لے گئے کیا ہوا؟ پاکستان کے کس ملک کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے ایک ملک کو ڈی مارش کر دیا اور آپ کے تعلقات خراب نہیں ہونگے؟ آپ ایک سپر پاور کو ڈی مارش کر رہے ہیں اور اوپن آرمز سے قبول کر لے گا، ڈی مارش کرنے سے آپ کے تعلقات خراب نہیں ہوئے ریلی میں کہہ دینے سے خراب ہو گئے؟

سائفر اور امریکی تعلقات

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے استفسار پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے جواب پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا کہ تعلقات خراب ہونے کے کیا شواہد ہیں؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بھی استفسار کیا کہ کیا پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ کو کیپٹل ہل میں بلایا گیا تھا؟ سفارتی تعلقات میں تو یہ پہلا قدم ہوتا ہے، کیا آپ امریکہ کی طرف سے تعلقات خراب ہونے کا بیان دے رہے ہیں؟ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے کارروائی جاری رکھتے ہوئے استفسار کیا کہاں ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے؟ ایک خاتون کے واٹس ایپ میسج کے علاوہ آپ کے پاس کیا ہے؟ کیا امریکہ نے ویزے بند کر دیئے، طلبہ کے داخلے بند کر دیئے، تجارت بند کر دی، ایسا کچھ ہے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے جلسے میں دیے بیان کی تو امریکہ نے تردید کی ہے، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس حوالے سے پورے دنیا کے میڈیا میں جو رپورٹ ہوا وہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے، پراسیکیوٹر کے جواب پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ان کے مخالفین کے بیانات ہیں، رانا ثناء اللہ کا بھی بیان ہے، یہ تو سیاسی بیانات کی رپورٹنگ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اہم پی ٹی آئی رہنما نا معلوم افراد کے حملے میں زخمی

فاضل جج کے ریمارکس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مکالمہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ غیر جانبدار میڈیا کی بھی رپورٹنگ ہے، وائس آف امریکہ، ڈی ڈبلیو  اور دیگر انٹرنیشنل میڈیا نے بھی ذکر کیا، جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ بھارت کی طرف سے تو نہیں ہے؟ آپ نے بھارتی اخبارات کا ذکر کیا ہے، جس پر پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ آپ اس کو نظر انداز کریں۔

سائفر کو عدالت پیش نہ کرنے کی وجہ

ایف آئی اے پراسیکیوٹرنے عدالت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کانفیڈنشیل دستاویز ہونے کی وجہ سے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ عدالت سے غیرمتعلقہ افراد کو باہر نکال کر دستاویز پیش کیا جا سکتا تھا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کیا سیکرٹ دستاویز عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا؟ کیا کسی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ یہ خفیہ دستاویز ہے پیش نہیں کی جائے گی؟ ایف آئی اے کے سامنے تو سائفر پیش کیا گیا، عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟

فاضل ججوں کے استفسار پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عدالت نے مانگا ہی نہیں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کیوں مانگتی پراسیکیوشن کو پیش کرنا چاہیے تھا، اگر ہم کہیں کہ سائفر دیکھنا ہے تو کیا کریں گے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم عدالت میں پیش کر دیں گے۔

حکومت گرانے کا حکم

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خطرناک راستے پر چل رہے ہیں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہ دستاویز صرف عدالت کو دکھانے کیلئے لا سکتے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر عدالت اس دستاویز سے متعلق فیصلے میں نہیں لکھ سکتی تو پھر کیا ضرورت ہے؟  جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر کا جو متن بتایا وہ درست تھا، اگر اس کی حکومت گرانے کا کہا گیا تو پھر اسے معلومات کیوں نہیں دینی چاہیے تھی؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ کیونکہ یہ دستاویز کانفیڈنشیل تھی۔

سماعت ملتوی

چیف جسٹس عامر فاروق نے کارروائی کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ آج یہیں ختم کرتے ہیں کل دوبارہ سنیں گے، ایف آئی اے پراسیکیوٹرنے کہا کہ میں بھی کل کوشش کروں گا کہ دلائل مکمل کر لوں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ آپ نے دلائل مکمل کر لیے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عدالتی سوالات کی وجہ سے آج مکمل نہیں ہو سکا۔

چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدغن تو نہ لگائیں نا کہ سوال نہیں کرنا، سوال تو ان سے بھی بہت کیے ہیں، پھر ہم امید کریں گے کل آپ بھی مکمل کریں اور جواب الجواب بھی مکمل ہو جائے، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔