وزیراعظم شہباز شریف گوادر کوئٹہ پہنچ گئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف آج بروز جمعہ 3 جون کو ایک روزہ دورے پر گوادر کوئٹہ پہنچ گئے ہیں، اس سے قبل وزیراعظم نے بطور مہمان کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کی۔
دورہ بلوچستان کے موقع پر وفاقی وزرا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ آرمی چیف بھی اس وقت کوئٹہ میں موجود ہیں۔کوئٹہ ایئرپورٹ آمد پر قائم مقام گورنر میر جان محمد جمالی اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں پاسنگ آؤٹ پریڈ بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ وزیراعظم افسروں سے خطاب بھی کیا۔
کوئٹہ آمد پر وزیراعظم امن و امان سے متعلق اجلاس کی صدارت بھی کی، جب کہ حکام کی جانب سے انہیں شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ اور اس کے نقصانات سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی۔ وزیراعظم سے کوئٹہ میں مقامی عہدے داروں اور صوبائی اراکین سے ملاقاتیں بھی شیڈول کی گئی تھیں۔
PM Shehbaz Sharif receives briefing on Balochistan development while on way to Quetta pic.twitter.com/XgxxFbU903
— Prime Minister's Office (@PakPMO) April 23, 2022
بعد ازاں وزیراعظم کوئٹہ سے وہ گوادر پہنچیں، جہاں وہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کریں گے، وزیر اعظم کو گوادر میں صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف گوادر کی نئی تعمیر شدہ بندرگاہ کا دورہ کریں گے۔ وزیراعظم گوادر پورٹ کا فضائی دورہ کریں گے اور ایسٹ بے ایکسپریس وے (EBE) کا افتتاح کریں گے۔شہباز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان پہلی بار گوادر کا دورہ کر رہے ہیں۔ گوادر آمد پر شہباز شریف ماہی گیروں اور مقامی عہدے داروں سے بھی ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم چینی کمپنیوں کے وفد سے ملاقات کریں گے، اور میڈیاسے گفتگو کریں گے۔
وزیراعلیٰ بلوچستاب عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ضلع شیرانی کے جنگلات سے لوگوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے، صوبائی حکومت جنگلات کی آگ سے متاثرہ افراد کے روزگار کی بحالی اور نقصانات کا ازالہ کریگی۔ وزیراعظم سے جنگلات کی آگ سے لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لئے پیکج کی درخواست کرونگا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف 23 اپریل کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کوئٹہ پہنچے تھے، جہاں انہوں نے کوئٹہ میں این 25 کے خضدار کچلاک سیکشن کی ڈیڑھ سال میں تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔کراچی تا چمن روڈ کو خونی شاہراہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جہاں سارا سال حادثات میں درجنوں افراد مارے جاتے ہیں۔
این 25 کے خضدار کچلاک، کوئٹہ کراچی شاہراہ کے 790 کلومیٹر کا حصہ ہے۔ ابتدائی طور پر خضدار۔ کچلاک شاہراہ کے دو سیکشنز جن کی لمبائی 102 کلومیٹر ہے، پر تعمیری کام شروع کردیا گیا ہے۔ یہ این 25 شاہراہ کراچی، کوئٹہ، چمن کا حصہ ہے، جس کو دوہرا کیا جارہا ہے اور اس کے لیے 22-2021 میں 3000 ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔
اپنے گزشتہ دورے کے دوران تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس چار لین شاہراہ پر 37 پل اور ایک ہزار کلورٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے نیٹ ورک کی کل لمبائی 14 ہزار 480 کلومیٹر ہے۔ جن میں سے چار ہزار 566 کلو میٹر سڑکیں بلوچستان میں ہیں۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے چیئرمین کیپٹن (ر) خرم آغا نے بتایا کہ خضدار، کچلاک شاہراہ کے سیکشن ون کی کنٹریکٹ کی لاگت 8786 ملین روپے ہے، جب کہ سیکشن ٹو کی لاگت 9271 ملین روپے ہے۔ شاہراہ کی تعمیر سے پانچ ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔ یہاں سے روزانہ 12 ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں، جب کہ یہ شاہراہ سے ٹرانزٹ ٹریڈ بھی گزرتی ہے۔
خرم آغا کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل مدت 36 ماہ ہے، جس کی تکیمل سے معاشی ترقی ہوگی۔ اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو چار لین سے بڑھا کر چھ کیا جائے اور اس کی مدت تکمیل کو ڈیڑھ سال کیا جائے۔ جس پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ شاہراہ کی پہلے چار لائن ہوگی، بعد میں اسے چھ کردیا جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس شاہراہ پر ٹریفک حادثات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے اعداد وشمارکےمطابق 2021 کے دوران 995 ٹریفک حادثات میں 106 افراد ہلاک ہوئے۔ذرائع کے مطابق صرف 465 حادثات خضدار سے کراچی تک رونما ہوئے، جن میں 37 افراد ہلاک اور 665 زخمی ہوئے۔
تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شاہراہ کی تعمیر میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور پاکستان کے مایہ ناز ٹھیکیداروں کو یہ کام دیا جائے، جب کہ اس کام کی ہم تھرڈ پارٹی کے ذریعے نگرانی کروائیں گے، تاکہ اس میں میٹریل کا درست استعمال یقینی بنایا جاسکے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ بلوچستان کی محرومیوں سےکوئی اختلاف رائے نہیں۔ یہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ یہاں معدنی وسائل موجود ہیں۔ کوئلہ ہے، سونا، کاپر اور بہت کچھ ہے، لیکن ان وسائل کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔