فواد چودھری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جیل بھیج دیاگیا

Jan 27, 2023 | 09:19:AM
پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ پہنچا دیا گیا۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے
کیپشن: فواد چودھری
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے پولیس کے فواد چودھری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کو 14 روز کے لئے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں فواد چودھری کے الیکشن کمیشن کیخلاف نفرت پھیلانے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ پراسیکوٹر نے فواد چوہدری کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ فواد چودھری کی وائس میچنگ ہوگئی، فوٹو گرامیڑک ٹیسٹ کے لیے ملزم کو لاہور سے لے جانا ہے، مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔

پراسیکوٹر نے عدالت میں موقف اپنایا کہ فواد چودھری آئینی ادارے کے خلاف نفرت اور بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بیان سے الیکشن کمیشن کے ورکرز کی جان کو خطرہ پیدا کیا جا رہا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل میں کہا کہ فواد چودھری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، انہوں نے اپنی تقریر کا اقرار بھی کیا ہے، تقریر پر تو کوئی اعتراض اٹھا نہیں سکتا، ملزم نے بیان مانا ہے۔

پراسیکیوشن نے شہبازگِل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری کیس کی مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ بہت ضروری ہے، رات بارہ بجے دو روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہو گیا تھا، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار اگلے چند ماہ بہت اہم ہے، الیکشن کمیشن کا کام کرپشن ختم کرنا ہے لیکن فواد چودھری پریشر بنا رہے، الیکشن کمیشن کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، فواد چودھری نے نفرت پھیلانے کی کوشش کی، حکومت کے خلاف الزامات لگائے، الیکشن کمیشن کو حکومت کا منشی کہا، فواد چودھری نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے ملازمین کے گھروں تک جائیں گے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ رات بارہ بجے دو روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہو گیا تھا، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے، اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سی ڈی اے پیمرا سے حاصل کر لی ہے، وائس میچنگ بھی کر لی ہے، ملزم نے گزشتہ سماعت پر عدالت کے سامنے تقریر کا اعتراف بھی کیا ہے، گزشتہ سماعت پر میرے دلائل کے دوران انشا اللہ ماشااللہ کہہ رہے تھے، ہمیں کہا گیا کہ یہ منشی کا کام کرتے ہیں، ہمیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان کے گھروں تک جائیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید بتایا کہ حکومت کے ساتھ ملا کر الیکشن کمیشن کے خلاف رجیم چینج کے بعد ایسی باتیں کی جا رہی ہیں، ہمیں بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا اور پریشرائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، فواد چودھری سینیرسیاستدان ہیں لیکن قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں، فواد چودھری کے گھر کی تالاشی لینا ضروری ہے۔

دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری کے گھر سے لیپ ٹاپ اور موبائل ان کی موجودگی میں حاصل کرنا ضروری ہے، فواد چودھری کے بیان میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ جس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں بھی فواد چودھری کے بیان میں شامل ہوں۔

بابراعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ایٹمی ریاست کو موم کی گڑیا بنا دیا گیا ہے، ججوں کے گھروں تک جانے کا بیان دیا گیا، ہم نے پرچہ نہیں کروایا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فواد چودھری کا بیان کسی ایک بندے کا بیان نہیں ، ایک گروپ کا بیان ہے، الیکشن کمیشن کے ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداران کے خلاف مہم چل رہی ہے، ڈسچارج کی استدعا گزشتہ پیشی پر ڈیوٹی میجسٹریٹ نے مسترد کر دی تھی، عدالت کے سامنے تمام شہری برابر ہیں۔

وکیل بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ فواد چودھری کوئی کلبھوشن یا دہشتگرد نہیں ہے، کلبھوشن کے چہرے پر فواد چودھری کی طرح چادر نہیں ڈالی گئی، فواد چودھری کے لیے انسدادہشگردی فورس کے اہلکار کھڑے کیے ہوئے ہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکر ہے۔

اپنے دلائل میں وکیل بابر اعوان نے کہا کہ کیس کا مدعی ایک سرکاری ملازم ہے، ٹیکس عوام دیتی ہے، موج سرکاری افسران لگاتے ہیں، پبلک سروینٹ کا مطلب عوام کا نوکر ہے، پراسیکیوشن کہتی ہے فواد چودھری بولتا ہے، پاکستان میں کون نہیں بولتا ؟ ڈالر نیچے لانے کا بیان دیا گیا تھا، اس کو کیوں نہیں پکڑتے ؟ ماضی میں ججز کے لیے جس نے جو بولا وہ سب آج حکومت میں شامل ہیں۔

بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کہتی ہے مزید ملزمان کو ڈھونڈنا ہے، پولیس جس کو پکرتی ہے کہتی ہے لاہور میں بیٹھے شخص کا نام لے لو، تحریک انصاف کے رہنما شیر کے بچے ہیں، لاہور میں بیٹھنے والے کا نام نہیں لیتے۔

جج نے وکیل بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دلائل دینا حق ہے لیکن تھوڑا مختصر کر دیں۔ جس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ میں دو دن دلائل کے لیے لوں گا اور آج تو میرا جنم دن بھی ہے۔ عدالت میں وکیل بابر اعوان کو جنم دن کی مبارکباد دی گئی۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد ووٹ میں لوگوں کو خریدا گیا، فواد چودھری کے بیان کی وڈیو موجود ہے، تفتیش اور کرنی کیا ہے ؟ الیکشن کمیشن نے بطور حکومت خود کو بنا لیا ہے، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سے ایک رات قبل الیکشن کمیشن بھاگ گیا۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے، پراسیکیوشن کہتی ہے بیان سے سرکاری ادارے خطرے میں آگئے، پراسیکیوشن نے تو میڈم نور جہاں کے نغمے کے خلاف بات کر دی، میڈم نور جہاں کہتیں وطن کے سجیلے جوانوں، پراسیکیوشن کہتی بیان سے سرکاری ادارے گر گئے۔

وکیل بابراعوان نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن جتنی غلامی تو بھارتی پبلک سروینٹ نہیں کرتے، مقدمے میں فواد چودھری پر دو دفعات نہیں لگتیں، جیل یا مقدمے سے تحریک انصاف والے تھوڑی پیچھے ہٹ جائیں گے۔

سماعت سے قبل سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی اپنی اہلیہ سے عدالت میں ملاقات ہوئی، جس میں فواد چوہدری کی اہلیہ نے پی ٹی آئی رہنما کے ساتھ وکٹری کا نشان بنایا۔

خیال رہے سابق وفاقی وزیر و پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا۔ فواد چوہدری کے خلاف الیکشن کمیشن کے ممبران کو دھمکانے پر مقدمہ درج ہے۔ فواد چوہدری پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔