حد میں رہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کی ا ہلیہ کو عدالت کی تنبیہ

Dec 08, 2020 | 18:35:PM
 حد میں رہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کی ا ہلیہ کو عدالت کی تنبیہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 
(24نیوز)سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے چیف جسٹس کو فریق کہنے پر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس د یئے کہ آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔ نظرثانی کیس سننے والے بنچ پر اٹھائے گئے اعتراض پر مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔
گزشتہ روز جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل 6 رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر دیئے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس عیسیٰ، ان کی اہلیہ و دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت سرینا عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ رول 26 اے کے مطابق صرف وہی بنچ نظر ثانی کی درخواستیں سن سکتا ہے جس نے پہلے سماعت کی ہو، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ سپریم کورٹ اپنے رولز پر عمل کیوں نہیں کر رہی، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 6 رکنی بنچ تشکیل دے کر غلطی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 6 رکنی بنچ کیسے 7 رکنی بنچ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست سن سکتا ہے اور 7 رکنی اکثریتی فیصلے کو 6 رکنی بنچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ میری عدالت سے استدعا ہے کہ نظرثانی کی درخواست سننے کےلئے اختلافی نوٹ والے ججز کو بھی بنچ میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے بنچ کے تمام ججز سے باری باری ایک ہی سوال کیا کہ کیا 6 ججز بنچ 7 رکنی بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں مانتا ہوں 6 رکنی بنچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ 
ان کے ریمارکس پر سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میرے مقدمے کی سماعت کے لیے 10 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے نکات نوٹ کر لئے ہیں، آپ حقائق کو نظر انداز کر رہی ہیں، ہم نظر ثانی اپیل نہیں سن رہے بلکہ ہم بنچ کی تشکیل کے خلاف درخواست سن رہے ہیں۔
 سرینا عیسیٰ نے مذکورہ معاملے کی مرکزی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کیس میں فریق نہیں تھی لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے فریق نہ ہونے کے باوجود 81 مرتبہ میرا نام لیا۔اس موقع پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، قاضی فائز عیسیٰ کے بنچ کا حصہ رہ چکے ہیں، چیف جسٹس بطور چیئرمین جوڈیشل کونسل ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
 چیف جسٹس اس کیس میں فریق ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیف جسٹس پر الزام لگا رہی ہیں، آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔ آپ ہماری فیملی کا حصہ ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پر الزام لگایا جائے، آپ ادارے اور اس کے سربراہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہیں،انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بنچ بنا سکتا ہے یہ ان کا آئینی اختیار ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے بعد سرینا عیسیٰ نے عدالت سے معافی مانگ لی اور کہا کہ میرا مقصد کسی جج کی دل آزاری نہیں تھا، اگر کسی جج کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتی ہوں۔بعد ازاں کیس کی سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔ سرینا عیسیٰ نے مزید کہاکہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم نے غیر قانونی طریقہ اپنایا، اس پر جسٹس عمر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیس کے میرٹ پر نہ جائیں ہم نظر ثانی درخواستیں سنیں گے۔جس کے بعد سرینا عیسیٰ روسٹرم سے ہٹ گئیں، بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل دیئے۔
 سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا تاثر عوام میں رکھنا بار کا کام ہے، جج خود عوام میں نہیں جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں، ہم نے اپنے فیصلے میں توازن رکھا، ایک طرف جج پر لگائے اعتراضات ختم کرکے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا، دوسری طرف احتساب کے عمل کو تحفظ دیا۔
اس موقع پر سندھ بار کونسل کے وکیل رشید اے رضوی نے عدالت میں مو¿قف اپنایا کہ اگر 9 جج نظرثانی کیس سنے تو اس سے نقصان کیا ہے، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا۔جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک سینئر وکیل کے منہ سے عدالت پر عدم اعتماد قابل افسوس ہے، ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلے 2 ججز پر اعتراض اٹھایا گیا، آج پھر اعتراضات اٹھائے گئے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل کے ممکنات پر ججوں پر اعتراض اٹھانا نامناسب تھا، ہم نے اعتراض مسترد کیا لیکن جج خود بنچ سے الگ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ ہم بنچ کی تشکیل کا معاملہ آئین و قانون کے مطابق طے کریں گے۔نظرثانی کیس سننے والے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض پر مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔بعد ازاں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔