ن لیگ کو دوتہائی اکثریت کی گارنٹی مل گئی؟

Nov 14, 2023 | 09:14:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ن لیگ کو دوتہائی اکثریت کی گارنٹی مل گئی؟ملکی سیاست میں اس وقت جوڑ توڑ اور اپنی برتری ثابت کرنے کا دور چل رہا ہے۔ہر جماعت اپنے بیانات کی حد تک ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش ہے میں ہے ۔ہر پارٹی پس پردہ سروے کے زریعے عوام کا موڈ جانچ رہی اور اسی بنیا د پر اگلے انتخابات میں اپنی حکمت عملی ترتیب دی رہی ہے۔اسی طرح کا ایک سروے مسلم لیگ ن کی جانب سے اندرون خانہ کرایا گیا ۔پروگرام’10تک ‘میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اس سروے کے نتائج اور اس کے بعد مبینہ طور نواز شریف کی جانب سے بتائی گئی اپنی خواہش خاصی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ن لیگ کے ذرائع یہ دعوے کر رہےہے کہ تھرڈ پارٹی اوراسحاق ڈار کی نگرانی میں ایک سروے کرایا گیا ہے جس میں سات لاکھ ووٹروں نے حصہ لیا۔اس کے نتائج کے مطابق مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کو پنجاب کی قومی اسمبلی کی 141 جنرل نشستوں میں سے 90 کے قریب نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ویسے تو یہ سروے اسحاق ڈار کی زیر نگرانی کرایا گیا جن مخالفین اعداو و شمار کے ہیر پھیر کا ماہر ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔ لیکن اس سروے کو حقیقی مان کر اب مسلم لیگ ن اپنی مقبولیت اور قبولیت مزید بہتر بنانے کے لیے الیکٹیبلز کو پارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔بتایا جا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے اسی سروے کو مدنظر رکھ کر آئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کے حصول کو اولین ہدف قرار دیتے ہوئے رانا ثنا اللہ کو ٹاسک دیا ہے کہ ہر اس حلقے میں الیکٹبلز کو شامل کیا جائے جو سیٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاکہ جماعت پنجاب کی 141 نشستوں میں سے 120 حاصل کر سکے۔ مسلم لیگ ن کی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خواہش اپنی جگہ لیکن موجودہ حالات اس خواہش سے مطابقت نہیں رکھتے ۔حالات یہ ہے کہ پنجاب کی حد تک بھی مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم کا سامنا ہے ۔سندھ کے پی اور بلوچستان میں صورتحال پنجاب سے زیادہ خراب ہے۔ایسے میں دو تہائی کے خواب دیکھنا بے وقوفوں کی جنت میں ر ہنے کے متراداف ہے۔آسان الفاظ میں اگر دو تہائی اکثریت کا مطلب سمجھایا جائے تو اس سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ن لیگ پنجاب میں کم سے کم ساری کی ساری نشستیں جیتنا ہوگی ۔1997 میں بھی جب مسلم لیگ ن نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی تب پنجاب کی 100 نسشتوں میں سے مسلم لیگ ن 94 سیٹیں حاصل کی تھی جب کہ 6 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔یہ آزاد امیدوار بھی بعد میں مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے تھے۔اسی طرح پیپلز پارٹی 1997 میں پورے ملک سے صرف 18 نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی تھی ۔اس طرح قومی اسمبلی کی ٹوٹل 237 نشستوں میں سے مسلم لیگ ن پورے ملک سے 217 نشستیں حاصل کر کے دو تہائی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی ۔اس بار بھی اگر مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے 336 کے ایوان میں 224 کے قریب نشستیں حاصل کرنا ہوگی ۔یہ نشستیں کسی اتحاد کے ساتھ بھی لینا ناممکن نظر آتا ہے۔مسلم لیگ ن کی حالیہ کوششوں سے اور میل میلاپ سے ایک چیز اور ظاہر کر تی ہے کہ اس جماعت نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں حاصل کیا۔یہ جماعت دعوے تو دو تہائی کے کر رہی ہے لیکن اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس جماعت کو سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے بھی ہاتھ پاوں مارنے پڑھ رہے ہیں ۔جس کی واضع مثالیں مسلم لیگ ن کی جانب سے مختلف جماعتوں کے ساتھ اتحاد ،سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور الیکٹبلز و کو پارٹی میں خوش آمدید کہنا ہے۔یہ جماعت اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کو تیار ہے جس سوراخ سے یہ پہلے دو بار ڈسی جا چکی ہے۔یہ انہیں جماعتوں پر تکیہ کیے ہوئے جن جماعتوں نے ماضی قریب میں انہیں ڈسا۔ایم کیو ایم اور باپ پارٹی اسی کی واضع مثال ہے۔ایم کیو ایم سے تمام باتیں طے ہو چکی ہے۔جس کے لیے پہلے ایک کیو ایم وفد لاہور اور اب مسلم لیگ ن کا وفد کا کراچی میں موجود ہے ۔دونوں جماعتیں کن شرائط پر بغلگیر ہو رہی ہے -

ٹیگز: