کسانوں کی وزیراعلیٰ سے فریاد

اظہر تھراج 

Dec 04, 2023 | 12:13:PM
کسانوں کی وزیراعلیٰ سے فریاد
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

روزانہ کی بنیادپر سینکڑوں پیغامات موصول ہورہے ہیں کہ ’’وزیراعلیٰ کو کسانوں کی فصلوں سے اٹھتا دھواں تو نظر آجاتا ہے لیکن آسمان کو چھوتی کھاد کی قیمتیں نظر نہیں آرہیں،گاڑیوں کے کالے دھوئیں پر تو نظر ہے لیکن بلیک میں فروخت ہونیوالے ڈی اے پی کھاد کے کنٹینرز  نظر نہیں آتے۔ کھاد ڈیلرزکے گوداموں میں موجود کھاد نظر نہیں آتی ،پنجاب کی انتظامیہ کی بااثر کھاد ڈیلرز    کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے ٹانگیں کانپتی ہیں یا پھر حصہ وصول کرکے خاموش ہے‘حقیقت یہ ہے کہ کسانوں پر فصلوں کی باقیات جلانے پر مقدمات درج ہو رہے ہیں لیکن بلیک میلر کھاد ڈیلرز کیخلاف کبھی بھی  انتظامیہ نے اعلان نہیں کیا کہ بلیک میں کھاد فروخت کرنیوالوں کیخلاف اتنے مقدمات درج ہوئے ‘‘ان کا یہ شکوہ بھی تھاکہ فصلوں پر اخراجات توکئی گنا آئے لیکن ان کو اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
میں نے جب ان شکایات کا جائزہ لیا تو یقین مانیے مجھے افسوس ہوا کہ ایک کسان جب سال بھر محنت کرتا ہے، جب پھل حاصل کرنے کا وقت آئے تو کوئی اور لے جاتا ہے،جس فصل پر خرچہ تو کئی گنا زیادہ ہو تا ہے اور آمدن نہ ہونے کے برابر،ایسا کسان دہائی بھی نہ دے تو کیا کرے۔میں نے ایسے کئی کاشتکار دیکھے ہیں جو سالوں سے قرض کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ،تلمبہ کے رہنے والے ایک شہری بتا رہے تھے کہ 90 فیصد لوگ سود کے کاروبار سے وابستہ ہیں، یہ سارا سود کا پیسہ ان کسانوں،غریبوں کو جارہا ہے۔حکومت ہے کہ نہ تو کسانوں کی مشکلات حل کررہی ہے اور نہ ہی ان سود خوروں کو لگام ڈال رہی ہے ۔ 

ضرور پڑھیں:عمران خان مائنس ؟

پانچ اضلاع ملتان،خانیوال،جھنگ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لیہ کے کسانوں سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے ڈی اے پی کھاد کے ناپید ہونے کا شکوہ کیا ،ساتھ ہی پتا چلا کہ جو مل رہی ہے وہ مہنگے داموں ۔حکومت کے بنائے گئے نرخوں پر ایک بوری بھی نہیں مل رہی ۔اس وقت گندم کی فصل کو ڈی اے پی کھاد کی اشد ضرورت ہے ،طلب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیلرز بھاری منافع کما رہے ہیں ۔

 سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی کے ساتھ اتنی بے حسی کیوں؟ کسان جب اناج اور سبزی لے کرشہر میں آتا ہے تو پولیس کے سپاہی سے لے کر آڑھتی تک سب لوٹتے ہیں۔ سارا سال جانور پالتا ہے اور سال میں ایک دن یعنی عید قربان پر انہیں بیچنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اس طرح کچھ خرچہ نکل آئے۔ اُس وقت بھی سارے ٹی وی چینل اور اخبارات آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ اس سال جانور بہت مہنگے ہوگئے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کسان سارا سال قربان ہوتا ہے ایک دن باقی لوگ قربانی دے دیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا صرف جانور ہی مہنگے ہوتے ہیں؟ دیگر اشیاء ضروری مہنگی نہیں ہوتیں؟ قیمتوں میں ہر سال 20 فی صد اضافہ نہیں ہوتا؟ اپنی تنخواہوں میں 20, 15 فی صد اضافہ تو سرکاری ملازمین، سیاستدانوں کو اچھا لگتا ہے لیکن کسان کی فصل کی قیمت بڑھ جائے تو کسی کو گوارا نہیں۔ ہر طرف اتنا ہنگامہ کیا جاتا ہے کہ کہ اتنی زیادتی! اب ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔ جیسے پہلے تو کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوتا۔

 یہ بھی پڑھیں:نوازشریف ایک بار پھر وزیراعظم بنیں گے؟
میری ایوانوں میں بیٹھے بڑے سیاستدانوں سے عرضی ہے کہ کبھی جاکر دیکھئے جو کسان کپاس پیدا کرتا ہے۔ آج بھی کھیت میں ایک بنیان اور لنگی پہنے ننگے پاؤں کھڑا ہے اُس کی اولادیں وہیں کھیتوں میں رل رہی ہیں جب کہ اس کی کپاس کے سوداگر درجنوں ٹیکسٹائل ملز لگا چکے ہیں اور اُن کے بچے بیرون ملک سے پڑھ کر کمزوروں کو لوٹنے کے نئے طریقے سیکھ کر لوٹتے ہیں۔

 
بڑی اچھی بات ہے کہ ملک بھر میں سڑکوں کے جال بچھائے جارہے ہیں، ریلوے کے نئے ٹریک لگائے جارہے ہیں، پاک چائنا اکنامک کوریڈور بھی بنایا جا رہا ہے، پن بجلی، ایٹمی بجلی کے پلانٹ بھی لگنے چاہئیں، صنعتوں کو فروغ ملنا چاہئے، گاڑیاں بھی سستی ہوئی ہیں،محسن رضا نقوی بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب لاہور اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں اتنی تیز رفتاری سے منصوبے مکمل کررہے ہیں کہ ان کو ’محسن سپیڈ‘کے نام سے پکارا جارہا ہے،ہسپتالوں کی حالت بدل رہے ہیں،سکولوں میں تعلیمی انقلاب آرہا ہے ،تھانے تبدیل ہوچکے ہیں ۔
وزیراعلیٰ صاحب !!سڑکیں بنائیں، پل بنائیں، بڑی بڑی انڈسٹریاں لگائیں،ہسپتال اور سکول بھی ٹھیک کریں ۔ لیکن ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کسان ہے جو انتظامیہ کی سرد مہری سے مررہا ہے۔ لہذا آپ درخواست ہے، التجا ہے، منت سماجت ہے کہ میرے  پنجاب کا کسان مررہا ہے، بچا سکتے ہیں تو بچا لیجئیے۔

 نوٹ : تحریر بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ

Azhar Thiraj

ایڈیٹر سٹاف ممبر،دنیا نیوز،روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان اور دیگر اداروں میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں.