پنجاب انتخابات: الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی  

May 23, 2023 | 13:03:PM
پنجاب انتخابات: الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی  
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احتشام کیانی) سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کروانے کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کل تک ملتوی کردی گئی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کی،الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے اپنے دلائل دیئے، اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی۔ تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیاہے؟آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں۔ آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسارکیا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کیسے نظر ثانی درخواست میں نئی گراؤنڈز لی جا سکتی ہیں؟

 وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا۔ نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کیلئے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کاروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائیکورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ 

 وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائیکورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے۔ نظرثانی کیس میں آپکا موقف ہے کہ دائرہ محدود نہیں۔ کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمہ کیساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟ 

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ اپیل کا حق نہ ہونے کیوجہ سے نظر ثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا۔

اسی ضمن میں تحریک انصاف نے پنجاب الیکشن نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا، تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں جبکہ نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے۔

 جواب میں کہا گیا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 روز میں انتخابات کیلئے ڈیڈلائن مقرر کی، صدر مملکت نے انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ دی اور الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کر دیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا۔

تحریری بیان میں پی ٹی آئی نے کہا کہ آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہونگے، الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی، آرٹیکل 254 کیلئے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر موثر نہیں کیا جا سکتا۔

تحریک انصاف نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے اور ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کیلئے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کیلئے مسترد کر چکی ہے۔
 یہ بھی پڑھیں: پاکپتن: پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر ریاض رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری سے بچنے کیلئے سڑک پر لیٹ گئے

الیکشن کمیشن کے وکیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولز سپریم کورٹ نے خود آئین کے تحت بنائے ہیں، سپریم کورٹ کرمنل اور سول دائرہ اختیار سے باہر اختیارات استعمال نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کے نظرثانی اختیار کا آرٹیکل 188 اختیارات کو محدود نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین پاکستان نظرثانی کی اجازت دیتا ہے۔